چترال ڈائری:عوام کا روڈ کی تعمیر میں تاخیری حربوں کے خلاف احتجاجی مارچ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
بونی تا بوزوند روڈ، تورکھو اور تریچ کے دیہات کو چترال کے مرکزی علاقوں سے ملانے کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کا آغاز پندرہ سال قبل کیا گیا تھا، لیکن مختلف وجوہات، جیسے حکومتی عدم توجہ، ٹھیکیداروں کی کوتاہی، اور بیوروکریٹک تاخیری حربوں کے باعث یہ منصوبہ تا حال مکمل نہیں ہو سکا۔ حالیہ برسوں میں علاقے کے عوام نے بارہا مطالبہ کیا کہ اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے، کیونکہ یہ نہ صرف علاقے کی ترقی کے لیے اہم ہے بلکہ مقامی افراد کے روزمرہ کے معمولات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں عوامی احتجاج اس وقت شدت اختیار کر گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ متعلقہ حکام اور ٹھیکیدار نے مقررہ ڈیڈ لائنز کے باوجود کام کو مکمل نہیں کیا۔ عوامی عمائدین، بلدیاتی نمائندگان، اور تورکھو تریچ روڈ فورم کے اراکین نے اس بدعنوانی اور تاخیر کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے بونی کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔
عوام کا موقف ٹھیکیدار کی غیر ذمہ داری کے خلاف ایکشن لینا ہے۔ٹھیکیدار کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی اور کام میں غفلت ایک بڑی وجہ ہے۔ پیشگی ادائیگی کے باوجود کام کا مکمل نہ ہونا واضح طور پر بدعنوانی اور نااہلی کے زمرے میں آتا ہے۔
عوام نے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے کردار پر سوال اٹھائے۔محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایکسین اور دیگر حکام کی جانب سے ٹھیکیدار کی غیر ذمہ داری پر چشم پوشی بھی بدعنوانی کی ایک صورت ہے۔ معاہدوں کی نگرانی اور عملدرآمد میں ان کی ناکامی قابل مذمت ہے۔
تورکھو روڈ کی تعمیر میں تاخیر نے علاقے کی عوام کو سفری مشکلات اور معاشی مسائل میں مبتلا کر دیا ہے۔ کسانوں، تاجروں، طلبہ، اور دیگر افراد کو سفری دشواریوں کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
عوامی مطالبات کی قانونی حیثیت اپنی جگہ لیکن مقامی انتظامیہ کو بھی ٹھیکہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہئیے۔عوام نے اپنے احتجاج کو قانونی دائرے میں رکھنے کے لیے مقدمات درج کرنے، زمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی شکایت کی ہے۔عوام کی طرف سے یہ ایک مثبت قدم ہے جو عوام کے شعور اور قانون کی بالادستی پر یقین کو ظاہر کرتا ہے۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے عوامی تحریک کو منظم رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ احتجاج عوام کا حق ہے لیکن اس احتجاجی جلسے کو پرامن اور منظم رکھا جائے تاکہ کسی قسم کی بدنظمی پیدا نہ ہو۔ عوام کو چاہئیے کہ وہ قانونی راستے کو ترجیح دیں ۔
ٹھیکیدار، سی اینڈ ڈبلیو کے ایکسین، اور دیگر ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اور حکومتی ادارے کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کریں تاکہ عوام کے غصے کو کم کیا جاسکے۔
تورکھو روڈ کے اس منصوبے کی نگرانی کے لیے ایک آزادانہ کمیٹی تشکیل دی جائے جو عوامی نمائندوں، سول سوسائٹی کے اراکین، اور ماہرین پر مشتمل ہو۔
حکومتی ادارے معاہدوں کی پاسداری کو یقینی بنائیں اور ڈیڈ لائنز پر عمل درآمد میں ناکامی پر ذمہ داران کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے۔
مقامی اور قومی میڈیا اس معاملے کو اجاگر کرے تاکہ حکومتی اداروں اور بدعنوان عناصر پر دباؤ بڑھایا جا سکے اور کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بونی تا بوزوند روڈ کی تعمیر کا مسئلہ تورکھو اور تریچ کے عوام کے صبر کا امتحان بن چکا ہے۔ عوام کا حالیہ احتجاج ان کے جمہوری حقوق کا اظہار ہے، جو ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک مثبت قدم بھی ہے۔ اگر حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور شفافیت کو یقینی بنائے، تو نہ صرف یہ منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔