چین کا متوازی نیو ورلڈ آرڈر

چین کا متوازی نیو ورلڈ آرڈر

Dubai Naama

چین کا متوازی نیو ورلڈ آرڈر

امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ صرف ایک ماہ کے اندر ہی بے پردہ ہو گئے ہیں۔ امریکہ جیسی بلاشرکت غیرے سپر پاور کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر شائد زیب دیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ برق رفتار سیاسی طبیعت کے مالک ہیں۔ موجودہ عالمی سیاسی صورتحال ٹرمپ کی شخصیت کا کرشمہ ہے یا اندرون خانہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کارنامہ ہے؟ یہ سوال جہاں انتہائی دلچسپ ہے وہاں یہ حیرت انگیز بھی ہے۔ عالمی سطح پر خفیہ سیاسی منصوبہ بندی نہیں ہوا کرتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کی دوسری مدت میں آغاز ہی میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اس حوالے سے آئندہ چند ماہ اہم ہیں جب امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیئے جہاں مسلم ممالک متحد ہوتے نظر آ رہے ہیں وہاں روس اور چین بھی امریکہ کو چیلنج کر رہے ہیں۔

مشرق وسطی کی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی صدر نیتن یاہو جو امیدیں لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس وائٹ ہاو’س گئے تھے اس کا برملا اور اعلانیہ اظہار دونوں صدور نے مشترکہ طور پر کیا۔ امریکی صدر نے غزہ کی بحالی کے پردے میں اس پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا اور فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال کر اردن اور مصر وغیرہ میں بسانے کا اعلان کیا جسے دونوں ممالک نے سختی سے نہ صرف رد کر دیا بلکہ اس بیان کو مشرق وسطی میں قیام امن کے لیئے خطرناک بھی قرار دیا جس سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب ایک بڑا ملک ہے "فلسطینی ریاست” کو سعودی عرب میں قائم کیا جانا چایئے جس کی سعودی عرب نے سختی سے تردید کی بلکہ اس کے جواب میں سعودی عرب کے ایک وزیر نے بیان دیا کہ فلسطینی ریاست کو امریکی ریاست "الاسکا” میں کیوں نہ قائم کیا جائے۔ اس پس منظر میں ترکی نے بھی اسرائیل اور امریکہ کی مذمت کی۔ جبکہ پاکستان نے اس کا شدید ردعمل دیتے ہوئے سعودی عرب سے مکمل اظہار یکجہتی کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی دلیرانہ بیان دیتے ہوئے سعودی عرب کے موقف کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ فلسطین کا دارلخلافہ "القدس” ہی ہو گا جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان نے موقف اختیار کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی تجویز انتہائی پریشان کن اور غیر منصفانہ ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے دوست ممالک کے ہم منصبوں سے بھی گفتگو کی اور پاکستانی وزارت خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فلسطینی ریاست کا حق مسلمہ ہے، اور اسرائیل کی ذہنیت ایک قابض اور انتہاپسند ملک جیسی ہے۔ جبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی تجویز بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسی کے پیش نظر عرب ممالک نے 27فروری کو "عرب لیگ” کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں اسلامی کانفرنس (OIC) کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا تاکہ اسلامی ممالک نئی صورتحال میں فلسطین کے مسئلہ پر ایک مشترکہ اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کر سکیں۔

امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے بانی یہودی نژاد سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہینری کسنجر تھے جنہوں نے لمحہ تھامیئے (Seize The Moment) کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے ایک باب اسلامک ورلڈ (Islamic World) کا شامل کیا تھا۔ اس باب میں انہوں نے مسلم ممالک اور مسلمانوں کے بارے میں بہت تلخ اور شرانگیز زبان استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں مسلمان بنیاد پرست ہیں اور انسانی ترقی کے دشمن ہیں، جنہیں گھروں سے نکال کر اسی طرح مارا جانا چایئے جیسے سانپوں کو بلوں سے نکال کر مارا جاتا ہے۔ لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں نیو ورلڈ آرڈر اپنے پر باہر نکال رہا ہے جس کی مخالفت میں نہ صرف مسلمان اکٹھے ہونے کے لیئے پر طول رہے ہیں بلکہ امریکی اور اسرائیلی صدور کے بیانات کی روس اور چین نے بھی سختی سے مذمت کی یے۔

ایران کا موقف ہے کہ امریکہ کے "نیو ورلڈ آرڈر” کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ حالانکہ امریکہ نے ایران کو یہ لوری دی ہے کہ ایران اگر امریکہ سے معاہدہ کر لے تو اسرائیل ایران پر مستقبل میں حملہ نہیں کرے گا۔ نوے کے عشرے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد صیہونی مغرب نے جو پہلی تھیوری پیش کی اور جس کا پروپیگنڈہ کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا وہ یہ تھی کہ اب امریکی قیادت کے سامنے کوئی چیلنج یا کوئی حریف نہيں ہے۔
اس سلسلے میں ہینری کسنجر کے علاوہ دیگر کتب بھی لکھی گئیں مثال کے طور پر فوکویاما نے اپنی معروف کتاب The End of History and the Last Man میں لکھا کہ اب سب کچھ مکمل ہو گیا ہے اور انسان اپنی اصلی تکمیل تک پہنچ گیا یے۔ لبرل سیکولرزم پوری دنیا پر چھا جائے گا اور اسلامی انقلاب اور اس طرح کی دیگر مزاحمتوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی طرح ہینٹنگٹن نے اپنی کتاب Clash of Civilizations میں لکھا کہ موجودہ جنگوں اور تنازعات کی تھیوری، ثقافتی میدان تک پہنچ گئی ہے اور ان سب کو لبرل سیکولرزم کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بناء پر ہم آخری فاتح نظریے کے حامل ہيں اور عالمی سطح پر امریکہ اور صیہونی مغرب کی قیادت نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔ اس کے بعد اس نظریہ کے ساتھ کہ دنیا کا دوسرا بلاک ختم ہو چکا ہے اور اب سپر پاور ہونے کے لئے امریکہ کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہے جس کا آغاز انہوں نے عراق و افغانستان پر حملہ کر کے کیا۔ جب امریکہ کو افغانستان اور عراق پر حملوں کے مقاصد حاصل نہ ہوئے تو اب ڈونلڈ ٹرمپ کو آزمایا جا رہا ہے۔ اس مد میں ابتداء ہی میں جو عالمی ردعمل آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نیو ورلڈ آرڈر کے مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے تاریخ میں وہ نام لکھوائیں گے جو روس کی تاریخ میں صدر گوربا چوف نے لکھوایا تھا۔

سابق روسی صدر گوربا چوف کے نظریات آغاز میں بڑے پرکشش تھے۔ وہ مغرب اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی آنکھوں کا تارا تھے جس پر انہیں "نوبل انعام” سے بھی نوازا گیا تھا۔ گوربا چوف ایک فلسفی نما کیمونسٹ آئیڈیالوجی کے رہنما تھے جنہوں نے گلاسنوسٹ (Glasnost) اور پیراسٹرائیکا (Perestroika) جیسے دو تصورات پیش کئے۔ گلاسنوسٹ کے مطابق آزادی رائے اور جمہوریت کی اہمیت اور پیراسٹرائیکا کے تحت تمام معاشی پالیسیوں کو آزاد مارکیٹ کے ساتھ منسلک کرنا تھا۔ ان دونوں نظریات نے سوویت یونین کے بنیادی نظریاتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے جونہی صدارت سے استعفی دیا امریکہ کے مدمقابل سرد جنگ کا طاقتور روس اور سنہ1991ء تک پوری دنیا کے مزدوروں کو بادشاہی کے خواب دکھانے والا سوویت یونین 15 چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا جن میں چھ مسلمان ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، ترکمانستان، قازقستان اور آذربائیجان بھی شامل تھیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس شوخی اور سج دھج سے دوسری بار اقتدار کی مسند پر متمکن ہوئے ہیں وہ پھولوں کی سیج نہیں اور نہ ہی یہ 90 کی دہائی والا سرد جنگ کا زمانہ ہے۔ روس اپنی ازسرنو تشکیل کر چکا ہے۔ دوسری طرف چین نے بھی ایک نیو ورلڈ آرڈر پیش کر رکھا ہے جس کا آغاز سعودی عرب سے ہوا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھنا چایئے کہ چین کے تعاون سے مارچ 2023ء میں عالمی سیاسی افق پر ایک نئی تبدیلی آئی جو ایران اور سعودی عرب میں صُلح اور سفارتی تعلقات کی بحالی تھی۔ اس صلح کا محرک چین تھا۔ چین نے ماضی کے ان دشمنوں کو قریب لانے کے لیے خفیہ ثالثی کی اور یہی بات امریکہ اور اس کے قریبی اتحادیوں کے لئے جہاں کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں تھی وہاں چین کے ایک نیو ورلڈ کی بنیاد بھی تھی جس کی پذیرائی کے لیئے آج پاکستان اور دیگر اسلامی ملک امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

Title Image by will zhang from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں