شاہد اعوان، بلاتامل
اللہ کے تقرب کا ثبوت مخلوق سے محبت میں پنہاں ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ سے محبت کرنے والا اللہ کی مخلوق سے محبت نہ کرے ۔ خالق نے اپنی ذات کو مخفی رکھا ہے اور صفات کو آشکار فرمایا ہے ۔ مقربینِ حق کی زندگیوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ وہ ہمیشہ انسانوں کی خدمت میں پیش پیش رہے ۔ مولا علی علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ اللہ کی ایک صفت ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ اگر ہم دنیا میں دیکھیں کہ جس انسان نے مخلوق کی خدمت کی وہ ہر مقام پر معتبر ٹھہرا چاہے وہ سماجی شعبہ ہو یا سیاست کا میدانِ کارزار ، مخلوق کو اس کا جائز مقام دلانے والے کی شہرت کے چرچے دنیا میں ضرور عام ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا ۔
ہمارا آج کا موضوعِ سخن وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ہیں جو اس سے قبل بھی مشرف دور میں اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہ چکے ہیں انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں پنجاب کے لوگوں کی بھلائی کے بہت سے منصوبے دئیے جن میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لئے1122جیسا ادارہ قائم کیا ، مختلف اضلاع میں ہسپتالوں کا قیام ، شہروں میں وارڈن سسٹم جبکہ دور دراز دیہی علاقوں میں پولیس چوکیاں اور فورس بنائیں۔ 18سال گزر جانے کے باوجود بعد کی حکومتوں نے ان کے قائم کردہ نئے اداروں پر جان بوجھ کر زیادہ توجہ نہ دی اور سرکاری فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث ان اداروں کی صلاحیتوں میں کمی آتی چلی گئی تاہم ان اداروں کی اہمیت و افادیت سے بہرطور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں دوبارہ اقتدار میں آئے ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا اور وہ مکمل طور پر اپنی ذمہ داریاں بھی سنبھال نہیں سکے کہ انہوں نے اپنے آبائی ضلع گجرات کو ڈویژن کا درجہ دے کر ثابت کر دیا کہ وہ اپنے علاقے سے کس قدر محبت رکھتے ہیں ان کا یہ اقدام لاکھوں انسانوں کے دل کی آواز تھا۔ ضلع منڈی بہائوالدین جو اس سے قبل گجرات کی ایک تحصیل تھی اس کو ضلع کا درجہ بھی انہوں نے دلایا تھا اسی طرح ضلع حافظ آباد اور گجرات پر مشتمل اس ڈویژن کی بہت سی قدریں یکساں ہیں ، اگر اس ڈویژن میں جہلم کو بھی ملا لیا جاتا تو ڈویژن کی قدر و قیمت مزید دوچند ہو جاتی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے وسعت قلب کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی آبائی دھرتی کا قرض اتارکر اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے نئے دروا کرد ئیے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو تلہ گنگ سے بھی کئی بار انتخاب لڑنے کا موقع ملا ہے اور اس علاقے کے لوگوں نے انہیں کبھی مایوس بھی نہیں کیا، موجودہ قومی اسمبلی کی سیٹ بھی انہی کے گھرانے میں چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین کے پاس ہے ۔ 1985ء سے تلہ گنگ کے باسیوں کے ساتھ وعدہ خلافی ہوتی آرہی ہے کہ وعدہ تھا تلہ گنگ کو ضلع بنانے کا مگر تان چکوال کو ضلع بنا کر ٹوٹی جس میں غیر فطری طور پر تلہ گنگ کو اٹک سے الگ کر کے چکوال میں شامل کر دیا گیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں تلہ گنگ کو ہمیشہ دوسرا درجہ دیا گیا۔ اعوان کاری کے اس تاریخی خطے کو الگ شناخت کی قدرتی طور پر بھی اشد ضرورت ہے یہاں کی زبان ، رہن سہن، کلچر، جغرافیائی حیثیت اس بات کے متقاضی ہیں کہ تحصیل تلہ گنگ اور تحصیل لاوہ پر مشتمل ایک نیا ضلع معرض وجود میں آئے جو وقت کی ضرورت بھی ہے اور اس کے لئے کافی عرصہ سے مقدور بھر کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں اور اپنی جگہ تلہ گنگ کا ہر باسی ’تلہ گنگ ضلع بنائو تحریک‘ کے لئے اپنی آواز بلند کرتا رہا ہے اور اس مشن میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اس ضمن میں سرفہرست جرنیلِ صحافت خوشنود علی خان سے لے کر تلہ گنگ کے مقامی میڈیا نمائندگان میں ملک میاں محمد، محمد افضل اعوان، فاروق علی خان ، محسن قیوم ، چوہدری غلام ربانی اور نوجوان صحافی دوستوں کی ایک بڑی تعداد اس مطالبے کی بازگشت میں شامل رہی، فقیر بھی اپنی جنم بھومی کے عشق میں اپنے کالموں کے ذریعے اس قلمی جدوجہد کا حصہ بنا رہا۔اسی طرح سماجی شعبے میں ممتاز ٹرانسپورٹر ملک حاکم خان ، ڈاکٹر آفتاب حیات اور ان کے دوست احباب کے علاوہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ملک محمد حسین اور ان کی ٹیم گلے پھاڑ پھاڑ کر ’تلہ گنگ ضلع بنائو مہم‘ میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرتے رہے ۔ ضلع کا وعدہ تو میاں نواز شریف نے 2013ء کے انتخابی جلسے میں تلہ گنگ کی سرزمین پر خود کیا تھا جس کے جواب میں تلہ گنگ والوں نے انہیں اس علاقہ سے بھاری مینڈیٹ دے کر اقتدار میں لایا مگر حکومت ملتے ہی میاں صاحب اور ان کی پارٹی کے مقامی لیڈران کو اپنا وعدہ وفا کرنا بھول گیا۔ چونکہ چوہدری پرویز الٰہی تلہ گنگ کو اپنا دوسرا گھر بھی کہتے ہیں اور اپنے اصلی گھر گجرات کوڈویژن کا درجہ دینے کے بعد اب دوسرے گھر تلہ گنگ کی باری ہے جس کے لئے انہیں تکنیکی موشگافیوں میں پڑنے کے بجائے جس طرح گجرات کو آناٌ فاناٌ ڈویژن بنا دیا اسی تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ دینے میں دیر نہیں لگانی چاہئے۔ بابائے سیاست سردار ممتاز خان ٹمن ، سردار منصور حیات ٹمن ، بزرگ لیگی راہنما ملک سلیم اقبال، کرنل سلطان سرخرو اعوان، شہریار اعوان اور دیگر سیاسی شخصیات کو ذاتی سیاست سے بالاتر ہو کر صرف تلہ گنگ کی خاطر ایک ہونا ہو گا اور ہر ایک کو اس اجتماعی مقصد کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے سب سے بڑھ کر چوہدری صاحب کے دستِ راست سابق صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر تلہ گنگ کی حقیقی آواز بن کر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے تلہ گنگ ضلع کا مطالبہ منوانے کی خاطر لاہور میں ڈیرے ڈال لیں اور اس وقت تک تلہ گنگ واپس نہ لوٹیں جب تک ضلع تلہ گنگ کا نوٹیفکیشن ان کے ہاتھ میں نہ آ جائے۔ یقینا ان کا یہ ’’کارنامہ‘‘ ناصرف ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کا باعث ہو گا بلکہ مستقبل کی سیاست میں ان کے لئے ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گا ۔ علاقے کی تعمیروترقی تب ہی ممکن ہے جب وہاں کے باسیوں کو اپنے نزدیک ترین انتظامی دفاتر میسر آجائیں۔ ٹمن تحصیل ہیڈکوارٹر کی تمام سہولتوں سے پہلے ہی مزین ہے یہاں صرف ٹی ایچ کیو ہسپتال اور ڈی ایس پی آفس کی سہولت دے کر اسے تحصیل بنانے میں کوئی امر مانع نہ ہے، جبکہ ضلع میں ایک اور مجوزہ تحصیل ہیڈکوارٹر تھوہا محرم خان بھی نئی دریافت ہو سکتا ہے۔ جب ضلع بن جائے اور اگر ضرورت محسوس کی گئی تو خوشاب اور اٹک اضلاع کے ملحقہ موضع جات بھی ضلع تلہ گنگ میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ یقینا تلہ گنگیوں کے لئے ضلع کی یہ نوید کسی عید سے کم نہ ہوگی ۔ امید واثق ہے کہ تلہ گنگ میں نو تعینات اسسٹنٹ کمشنر اور ہمارے دیرینہ دوست عدنان انجم راجہ اپنی سابقہ شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے ضلع کے لئے درکار دیگر سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور اگر وہ ترقی پا کر تلہ گنگ کے پہلے ڈپٹی کمشنر بھی بن جائیں تو ایک خوشگوار اضافہ ہو گا۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔