اظہار رائے کی آڑ میں انتشار

اظہار رائے کی آڑ میں انتشار

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے سوشل میڈیا میں اظہار رائے کے نام پر انتشار پھیلانے، دوسروں کو بدنام کرنے اور دیگر مسائل کے سدباب کے لیے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کرایا ہے۔ موجودہ دور میں معاشرہ بڑی تیزی سے ایسے ذرائع ابلاغ کی طرف متوجہ ہو رہا ہے جہاں لوگ اپنی مرضی سے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی مسائل پر اپنے نقطہ نظر کا آزادانہ اظہار کر سکیں۔ سوشل میڈیا نے عوام کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جہاں وہ اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں۔ تاہم اس آزادی اظہار کے ساتھ ذمہ داری کا تصور بھی جڑا ہوا ہے جو سماج، ثقافت، روایت اور مذہب کے وضع کردہ ضوابط کی پاسداری کا تقاضا کرتا ہے۔

اظہار رائے کی آزادی کی جڑیں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (1948) میں موجود ہیں جس میں ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار کا حق دیا گیا۔ پاکستان کے آئین میں بھی آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ حدود و قیود بھی عائد کی گئی ہیں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔

سوشل میڈیا کے عروج نے اظہار رائے کو جمہوری رنگ دیا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ جعلی خبریں، کردار کشی اور نفرت انگیز مواد کے پھیلاؤ نے اس آزادی کو متنازع بنا دیا ہے۔ یہ مسائل نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہیں بلکہ سماجی اور قومی سطح پر بھی سنگین نتائج کا باعث بنتے ہیں۔

حکومت پاکستان نے ان مسائل کے سدباب کے لیے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کرایا ہے۔ اس قانون کے اہم نکات میں فیک نیوز پر سزا، غیرقانونی مواد، سوشل میڈیا کی نئی تعریف وغیرہ شامل ہیں۔جعلی خبریں پھیلانے اور کسی کی کردار کشی پر تین سال قید، بیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔اسلام، پاکستان، عدلیہ اور فوج کے خلاف مواد غیر قانونی شمار ہوگا۔سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی جو مواد کو ریگولیٹ کرنے، شکایات پر کارروائی کرنے اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہوگی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور معیارات کے تعین کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ فیک نیوز کی روک تھام کے لیے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جعلی خبریں نہ صرف معاشرتی انتشار پیدا کرتی ہیں بلکہ قومی اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس قانون کے ذریعے ان مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ یہ قانون سازی مثبت قدم ہے لیکن اس کے غلط استعمال کا خدشہ بھی موجود ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ اس قانون کے اطلاق میں شفافیت کو یقینی بنائیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اظہار رائے کی جائز آزادی متاثر نہ ہو۔کسی کے خلاف کارروائی میں انتظامیہ کی بدنیتی ثابت ہو تو اس پر تادیبی کارروائی کی جائے۔اور میڈیا ہاؤسز کو بلاوجہ ہراساں نہ کیا جائے۔

اظہار رائے کے حق کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی اقدار کا احترام ہر فرد پر لازم ہے۔ جعلی خبریں پھیلانا اور دوسروں کی عزت کو نقصان پہنچانا کسی طور قابل قبول نہیں۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 ایک اہم پیش رفت ہے جو سوشل میڈیا کے منفی پہلوؤں پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم اس قانون کے نفاذ میں شفافیت اور توازن کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ آزادی رائے اور صحافت کے آئینی حقوق محفوظ رہ سکیں۔ حکومت اور عوام کو مل کر اس بات پر کام کرنا ہوگا کہ سوشل میڈیا ایک مثبت اور تعمیری پلیٹ فارم بنے جو سماجی ترقی میں معاون ثابت ہو۔

Title Image by memyselfaneye from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں