چھانگلا ولی، تربوز اور پتھر
کالم نگار: سید حبدار قائم
اگر پھول پر پڑی ہوئی شبنم کو غور سے دیکھا جاۓ تو کبھی اس میں سرخ رنگ نظر آتا ہے اور کبھی نیلا اور کبھی ارغوانی رنگ کی شعاٸیں نظر آتی ہیں شبنم پانی کا ایک لطیف قطرہ ہوتی ہے جو صدف کے دل میں جاۓ تو گوہر بن جاتی ہے پھول پر پڑے تو پھول کی رعنائی بڑھ جاتی ہے اور وہ نکھر جاتا ہے
اولیا کرام کو جو بندے جس نظر سے بھی دیکھیں وہ ان کو ویسا ہی نظر آتے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا
کہ مومن مومن کا آئینہ ہے
بے شک اولیا کی شخصیت آئینہ کی طرح ہوتی ہے ان کو جس زاویے سے دیکھا جاۓ آپ کو ویسے ہی نظر آئیں گے
یہ حدیث میں نے گوگل سے کاپی کی ہے تاکہ بات کہنی آسان ہو جائے حدیثِ قدسی ہے
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
( جس نے میرے کسی ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )
فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے اس حدیث میں جس ضمن میں حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کی کرامت لکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ :
( اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے )
حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ ایک دفعہ بیٹھے ہوۓ تھے کہ ان کے پاس سے تربوز بیچنے والا گزرا آپ نے اسےکہا کہ ایک تربوز مجھے دے دو تو جواب میں اس نے فوراً یہ کہہ دیا کہ بوری میں تربوز نہیں پتھر ہیں۔ آپ نے فرمایا بالکل تم نے صحیح کہا ہے یہ پتھر ہی ہیں۔ تربوز بیچنے والا گدھا گاڑی لے کر آگے بڑھا اور انہیں بیچنے کے لیے بوری کا منہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بوری میں تربوزوں کی جگہ پتھر ہیں اس نے واپس آکر آپ سے معافی مانگی لیکن وقت گزر چکا تھا چنانچہ آپ کے پاس وہ پتھر چھوڑ کر چلا گیا بزرگ کہتے ہیں کہ وہ پتھر سبز رنگ کے تھے
جب اللہ بندے کا کان بن جاٸے اور اس کی زبان ہو جائے تو تربوزوں سے پتھر بنتے دیر نہیں لگتی
حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا اس وقت عالم جذب میں بیٹھے ہوئے تھے جس وقت تربوز والا آیا تھا
جب میں حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ تحقیق کر رہا تھا تو پنڈی گھیب کے نواحی گاوں چکی کے بزرگ پیر سید امداد علی شاہ المعروف لٹاں والا بابا نے یہ واقعہ مجھے سنایا جو میں نے قارئین کی بصارتوں کی نذر کیا ہے
آخر میں اللہ تعالٰی سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں بھی سچا مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے ایسا مومن جس کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒ نے بال جبریل میں فرمایا تھا
ہاتھ ہے ﷲ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا کار ساز
خاکی و نوری نہاد، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔