چھانگلا ولی اور پتھر کا بیڑہ
کالم نگار: سید حبدار قائم
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لکڑی کی تھی اور پانی پر تیرتی تھی جو اس میں بیٹھا فلاح پا گیا جو اس میں نہ بیٹھا غرق ہو گیا۔ اس کے بعد پنجتنؑ پاک کی کشتی جس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجات کا ذریعہ قرار دیا۔ ایسی کشتی ہے جو بھی اس پر بیٹھا فلاح پا گیا اور اس نے کشتی کو اتنا ہی فائدہ مند پایا جتنا اس نے اس کی عزت و توقیر کو مدِ نظر رکھا حضرت نوح علیہ اسلام کی کشتی سیلاب تھم جانے تک کار آمد تھی جبکہ پنجتنؑ کی کشتی قیامت تک کے لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔ حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ عرف چھانگلا ولی موج دریا کی کشتی پتھر کا ایک ہموار ٹکڑا تھی جس پر آپ اپنے مریدین جن میں بابا بغدادیؒ اور بابا ڈاھڈیؒ جن کی قبریں زیارت گاوں میں ہی حضرت علی اکبر المعروف کنج کنوارہ پیر کے مزار سے دریاۓ سندھ کی جانب چار یا پانچ منٹ کے فاصلے پر واقع ہیں آپ نے ان دونوں کو ساتھ لیا اور بیڑے کو چلنے کا حکم دیا تو پتھر کا بیڑہ بلوٹ گاؤں سے دریا کی طرف چل پڑا۔خشکی پر چلنے والا یہ پتھر کا بیڑہ ہر کسی نے دیکھا پھر یہ بیڑہ پانی میں داخل ہوکر بلوٹ شہر سے ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کے گاٶں زیارت گاوں تک تیرتا ہوا آگے بڑھا جسے لوگوں نے دیکھا جو کہ پانی کے بہاو کے الٹے رخ چل کر آیا دریا کی سطح سے زمین کی سطح اوپر ہے زیارت گاوں کے قریب بیڑا رک گیا تھا آپ کو مرشد نے حکم دیا تھا کہ جہاں بیڑا رک جاۓ گا وہاں کی مٹی سات رنگوں کی ہو گی وہاں پر جا کر اللہ پاک اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی تبلیغ کرنا اور لوگوں کو بدھو کراڑ جیسے ظالم جادوگر کے ظلم سے بچانا جب بیڑا دریاۓ سندھ میں رک گیا تو آپ نے دونوں مریدوں سے جب زیارت گاوں کی مٹی چیک کروائی تو اس کے سات رنگ پاۓ ۔ اس لیے مرشد کے حکم کے مطابق وہاں ہی قیام کیا پھر آپ نے پانی کو حکم دیا کہ اپنی سطح بلند کرے پانی اچھلا اور بیڑے کو اونچی جگہ پہنچا دیا ۔ کہتے ہیں آپ پانی کی سطح پر عام زمین کی طرح پیدل چلتے تھے۔ جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کا حکم ہوا پر چلتا تھا اسی طرح آپ کا حکم پانی پرچلتا تھا آپ کو ساغر سمندر بھی کہتے ہیں۔
اللہ پاک نے اولیا کرام کرامات سے مزین کر دیے ہیں فنا فی اللہ کا مقام انہیں کُن کی طاقت دے دیتا ہے وہ جیسا چاہیں اللہ کے حکم سے کر دیتے ہیں۔
زیارت گاوں اور اس کے اردگرد آپ نے دین کی تبلیغ سے کئی لوگوں کو اسلام کی دولت سے مالا مال کیا آج بھی اگر مسلمان اللہ کے احکام پر عمل کریں تو آگ اندازِ گلستاں پیدا کر سکتی ہے بیڑے یعنی کشتیاں لکڑی کی ہوتی ہیں پتھر کے بیڑے کو دریاۓ سندھ پر پانی کے بہاو کے الٹے رخ چلانا اولیا کا ہی کام ہے۔ آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔