چھانگلا ولی اور اژدھا
کالم نگار : ۔ سید حبدار قاٸم
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موجِ دریا عالم وجد میں جا رہے تھے آپ اللہ رب العزت سے گفتگو میں مشغول تھے کہ راستے میں ایک اژدھا نے راستہ روک لیا آپ نے اس کی طرف دیکھا اور منہ سے فوراً نکل گیا پتھر کا ہو جا اژدھا وہاں راستے میں ہی پتھر کا ہو گیا جس کی باقیات آج بھی زیارت گاٶں میں موجود ہیں۔ راستے میں پڑا یہ اژدھا پتھر کا بن کر لوگوں کے لیے عبرت کا نشاں بن گیا تاکہ کوٸی بھی اولیا کرام کا راستہ نہ روکے اور انہیں اپنے روحانی کام کرنے دے تمام اولیا کی زندگیاں پڑھ لیں تو یہ معلوم ہو گا کہ جس نے بھی کسی ولی کا راستہ روکا اسے اللہ رب العزت نے تباہ و برباد کر دیا
زیارت گاوں کا یہ اژدھا زمانے کے حوادث اور لوگوں کے پاٶں لگنے سے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے لیکن آج بھی اس کی داستان زیارت گاٶں کے بچے بچے کی زبان پر ہے غور و فکر کریں تو پتا چلتا ہے کہ ولی کی زبان اللہ کی زبان ہوتی ہے جو زبان سے نکل گیا وہ حرفِ کُن ہوگیا جو کن ہوا تو فیکون تو ہونا ہی ہوتا ہے۔ یہ لفظ کُن صرف اللہ کا ہے لیکن وہ اپنے اولیا کو اس لفظ کا خود اختیار دیتا ہے ضرورت پڑنے پر جس سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔