چھانگلا ولی اور جادو گر
کالم نگار: سید حبدار قائم
ٹلہ جوگیاں سے آنے والے جادوگروں نے مختلف علاقوں کے لوگوں کو اپنے جادو سے تنگ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے مرشد نے حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موجِ دریا کو زیارت گاوں کی طرف رختِ سفر باندھنے کا حکم دیا آپ کے علاوہ باغ نیلاب کے لوگوں کو جادوگر کے فتنہ سے بچانے کے لیے حضرت نوری سلطانؒ کو حضرت پیر سید عبدالوہابؒ نے بھیجا تھا ۔
یہ جادوگر سادہ لوح انسانوں کو دھوکہ دے کر مال بٹورتے تھے اور اپنی خواہشات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ایسے واقعات کا ذکر کتابوں میں بھی ملتا ہے حضرت نوری سلطانؒ سے منسوب پنجاب چیفز کے صفحہ نمبر 563 پر لیبل ایچ گرفن نے بھی ایسا ہی ایک واقعہ یوں رقم کیا ہے
"کھٹڑ جو کہ مسلمان تھے انہی دنوں ایک ہندو جوگی نیلاب آیا اور ایک طاقتور جادو سے پوری آبادی کو ہندو ازم کی طرف مائل کر دیا اس نے نہ صرف لوگوں بلکہ چوپاوں پر بھی جادو کیا جس کی وجہ سے مویشیوں کے تھنوں سے دودھ کی بجاۓ خون آتا جب یہ خبر شاہ عبدالوہاب تک پہنچی جو کہ ایک ولی کامل تھے جن کی رہائش اُچ ضلع لیہ میں تھی انہوں نے اپنے بیٹے نوری سلطان عبدالرحمان کو روانہ کیا تاکہ لوگوں کو دوبارہ حقیقی اسلام کی طرف واپس لائیں انہوں نے نیلاب کی جانب سفر اختیار کیا اور قبضہ کے مضافات میں ایک بوڑھی عورت سے ملے اور اس سے دودھ طلب کیا اس عورت نے اس آفت کے بارے میں بتایا جو کہ جانوروں پر آ پڑی لیکن اس کے باوجود عبدالرحمٰن سرکار نے دودھ کے لیے اصرار کیا اور ان کے ایمان کے بدلہ میں گاۓ کے تھنوں سے خون کے بدلے سفید دودھ شروع ہو گیا جوگی نے جب ولی کامل کی خبر سنی تو اس نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے پتنگ کی صورت اختیار کی مگر عبدالرحمٰن اس کے قریب نہ آۓ نوری سلطان نے اس بندے کی جانب جوتا پھینکا اور وہ مر کر پتھروں کے درمیان گر گیا ان لوگوں نے ہندو ازم کو چھوڑ دیا اور واپس اسلام کی جانب لوٹ آے یہ حقیقت نہیں ہے کہ کھٹڑ اور اعوان ہندو تھے بلکہ یہ ایک عارضی حادثہ تھا جو ان کے ساتھ پیش آیا۔”
(دی پنجاب چیفز از لیبل ایچ گرفن صفحہ 563 ماخد کتاب نیلاب وکھٹڑ مصنف عمران کھٹڑ )
مرشد کا حکم پانے پر آپ جادوگر کی سرکوبی کرنے کے لیے تحصیل جنڈ کے موضع زیارت پہنچے چوں کہ حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا فاقہ کشی کرتے اور غذا میں صرف دودھ استعمال کرتے تھے۔ اس لیے کہتے ہیں جب زیارت میں آپ نے قیام کیا تو شروع میں دریا کے کنارے ہی اپنے بیڑے کے پاس ٹھہرے اور آتے ہی اپنے مریدین کو حکم دیا کہ جاؤ زیارت گاؤں سے دودھ لے کر آؤ آپ کے مریدین نے حکم کی فورًا تعمیل کی اور گاؤں پہنچ گۓ جس گھر میں بھی جاتے وہ یہی کہتے کہ خود ہی بکری سے دودھ نکال لو۔ جس بکری کو بھی دوہتے تو تھنوں سے دودھ کی بجاۓ خون نکلتا۔ بکری کےمالکان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ گاؤں کا جادوگر بدھو کراڑ جب حکم دیتا ہے اس وقت بکری دودھ دیتی ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر خون ہی نکلتا ہے اور جو کسان اسے غلہ نہیں دیتا اس کے غلے میں آگ لگ جاتی ہے۔ چنانچہ مریدین خالی ہاتھ لوٹ گۓ جب آپ کو پتہ چلا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اب جاؤ بکریاں دودھ ہی دیں گی مریدین پھر گۓ اور بکریوں سے دودھ لے کر آۓ۔
شام کے وقت جب جادوگر بدھو کراڑ کے بندے دودھ دوہنے گۓ تو کسی بھی بکری سے دودھ حاصل نہ کر سکے جب بکری کے مالک سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ دریا کے کنارے ایک بزرگ آیا ہے اس نے سارا دودھ رقم دے کر لے لیا ہے۔
جادوگر بدھو کراڑ کے نوکروں نےجب بدھو کراڑ کو بتایا کہ معاملہ کیا ہے؟ تو جادوگر اپنے دوستوں کے ہمراہ حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا سے مقابلے کے لیے نکلا دریا کے کنارے پہنچا تو آپ آرام کر رہے تھے۔ اس نے کہا کہ یہ میرا علاقہ ہے آپ یہاں سے چلے جائیں۔ اگر یہاں رہنا ہے تو مجھے اپنی کرامت دکھائیں ۔آپ رحمت اللہ نے فرمایا پہلے آپ دکھاؤ اس جادوگر نے منتر پڑھا اور فضا میں اڑنے لگا آپ نے اپنے جوتے کو حکم دیا کہ اس جادوگر کی ہوا میں اچھی طرح پٹای کر کے نیچے اتار لاؤ ۔ چنانچہ آپ کے جوتے نے جادوگر بدھوکراڑ کی فضا میں اتنی پٹائی کی کہ وہ آپکے قدموں میں گرا اور معافی کا خواستگار ہوا آپ نے اس کو معاف فرمایا اور اس نے اور اس کے تمام دوستوں نے اسلام قبول کرکے آپ کی بیعت بھی کر لی مسلمانوں اور غریب ہندوؤں کو جادوگر کی بدمعاشیوں سے نجات مل گئی اور سارا گاؤں مشرف بہ اسلام ہو کر توحید کے نغمے گانے لگا۔ گاؤں میں مسجد بنائی گئی جہاں باجماعت نماز اور اذان کی صدا گونجنے لگی۔ کیونکہ یہی لا الہ کے حقیقی وارث تھے حضرت علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں
اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ
یہ لاالہ کے وارث اولیا جب جذبِ قلندرانہ کی چال چلتے ہیں تو ان کے جوتے بھی ہندوؤں کو مسلمان بنا لیتے ہیں ۔ یہ جب ایک نگاہ کرتے ہیں تو لوگوں کے دل سینوں میں کانپتے ہیں اور وہ اسلام قبول کر کے قلندرانہ جذب و مستی سے مزہ لیتے ہیں بزرگانِ دین کی دلبرانہ گفتگو سے لاکھوں کافر مسلمان ہوۓ اور ہم ہیں کہ پیٹ کی پوجا میں لگے ہوۓ ہیں ۔ اسلام اور اپنے اسلاف کا ہمیں علم ہی نہیں ہے وہ اپنی نگاہ سے دریاٶں کے رخ موڑ دیتے تھے ۔ اپنے اشاروں سے چاند کے ٹکڑے کر دیتے تھے اپنے خیال سے دیوار دوڑا لیتے تھے لیکن وہ جزبہ وہ ریاضت وہ مشاہدہ وہ عبادت کہاں سے لائیں وہ بستیاں کہاں گئیں جن میں ایسے فرشتوں سے بہتر بزرگوں کا قیام تھا۔ یہ مساجد الله أكبر کی صدائیں تو دیتی ہیں لیکن صداے بلالیؓ کہاں ہے میرا سلام ہو حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موجِ دریا پر جنہوں نے سر زمین اٹک میں اسلام کا پرچم بلند کیا ۔کیونکہ آپ کی آمد سے کفر و شرک کی ژالہ باریاں ختم ہوئیں ۔
یہ واقعہ تھٹی سیدو شاہ گاوں کے بزرگ سید اعجاز حسین شاہ نے مجھے اس وقت سنایا جب وہ ہمارے گھر غریبوال میں تشریف لاۓ تھے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بھی عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔