چھانگلا ولی اور جنجو

چھانگلا ولی اور جنجو


برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ کا سہرہ اولیا کرام کے سر ہے یہاں کے لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور طرح طرح کی خرافات میں گم تھے برہمن قوم کے ظلم کا شکار شودر تھے جن پر ہر قسم کے ستم روا رکھے جاتے تھے اگر کسی شودر کی نظر برہمن پر پڑ جاتی تو اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی جاتی تھی یہ قوم کسی نجات دہندہ کی تلاش میں تھی محمد بن قاسم اور دیگر مسلمان فاتحین کے ساتھ کثیر تعداد اولیا کی آئی جنہوں نے شودر قوم کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور اپنے کردار اور تبلیغ سے انہیں مسلمان کیا اس وقت مسلمانوں کا کردار اتنا بلند تھا کہ جو لوگ بھی دیکھتے وہ کردار کی رفعت سے متاثر ہوۓ بغیر نہ رہتے اس دور میں مسلمانوں کے کردار کی درخشانی تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی وہ تیرگی مٹانے والے تھے اجالے ان کے ساتھ ساتھ چلتے تھے وہ ایسے چراغ تھے کہ جن کے کردار اور خُو کے متعلق حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ وہ مسلمان یہ دعوٰی کر سکتے تھے کہ

مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
تو اے مسافر شب! خود چراغ بن جا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی

علاقہ جنڈ میں بھی ہندووں کی کمزور ذاتوں پر ایسے مظالم جاری تھے اس لیے حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کو مرشد نے حکم دیا کہ وہ جنڈ کے گرد و نواح میں جادوگر بدھو کراڑ کے ظلم و ستم سے لوگوں کو نجات دلائیں چنانچہ جب حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا کی پر نور آمد زیارت گاوں تحصیل جنڈ میں ہوٸ تو اس وقت ہندوٶں کی ایک غلام جماعت جنجو جن کے گلے میں غلامی کی ایک تختی نشانی کے طور پر ڈالی جاتی تھی تا کہ دور سے دیکھ کر پہچانے جا سکیں ایک ہندو راجہ کے زیر اثر اس جماعت کو جب آپ کی کرامات کا علم ہوا تو آپ کی طرف ان کا رجحان ہوگیا اور وہ جوق در جوق آپ کے پاس آنے لگے اور اسلام کی طرف راغب ہو کر کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان ہونے لگے آپ نے ان مظلوموں کو جبرِ برہمن سے نجات دلائی جنھوں نے آپ کے کردار اور اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔
یہ معلومات مجھے اس وقت ملیں جب میں حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا کی سیرت و کردار پر ایک کتاب مرتب کر رہا تھا میں نے اٹک کے مختلف گاوں کا سفر کیا اور بزرگ سادات سے حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا کے متعلق معلومات اکھٹی کیں کیونکہ مجھے اس وقت ایک کتاب ” روحانی ترون و روحانی رابطہ” جو عبدالحلیم اثر افغانی نے لکھی تھی کے علاوہ کہیں پر بھی حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا کا ذکر نہ ملا صرف شجروں میں بابا جی کا ذکر ملتا تھا اس سفر میں میرے ساتھ میرے گاوں کا میرا دوست عبدالمالک بھی تھا جب ہم تھٹی سیدو کھنڈہ پنڈی گھیب دندی اور چکی گاوں میں گۓ اس سفر کے دوران ہمیں بہت ساری معلومات ہمارے خاندان کے سو سالہ بزرگ سید کرم حسین شاہ سے ملیں جو کھنڈہ گاوں سے تعلق رکھتے تھے وہ فرماتے تھے کہ حضرت سید رحمت اللہ شاہ بخاریؒ المعروف چھانگلا ولی موج دریا کی تبلیغ کی وجہ سے ہندووں کی قوم جنجو نے اسلام قبول کیا جن کی تعداد سوا لاکھ تھی اور ان سب نے آپ کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی۔

چھانگلا ولی اور جنجو


جنجو قوم کے نظریات جاننے کے لیے میں نے بہت ساری کتب دیکھیں جن کے بارے میں معلومات نہیں ملیں ہو سکتا ہے کہ سید کرم حسین شاہ کی بات مجھے سمجھ نہ آئی ہو اور وہ قوم جنجوعہ ہو یا انہوں نے جنگجو کہا ہو جو اس وقت کھشتری قوم کے قبیلے سے مشہور تھے جن کا کام جنگ و جدل تھا لیکن ان کی یہ پہچان کہ ان کے گلے میں ایک چھوٹی سی لکڑی کی تختی ڈالی ہوتی تھی جو ان کی پہچان تھی تاریخ کے طالب علم اس کے بارے میں بتا سکتے ہیں بہرحال قوم کوئی بھی ہو اس میں شک نہیں کہ برصغیر میں اسلام اولیاۓ اللہ کے عظیم کردار اور فکر و عمل کی بدولت ہی پھیلا ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

چھانگلا ولی اور پیر نارا کے سینگ

جمعرات دسمبر 7 , 2023
اکبر بادشاہ نے 1581ٕ میں اٹک قلعہ کی بنیاد رکھی جب اکبر بادشاہ اٹک خورد دریاۓ سندھ سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک مجذوب پر پڑی
چھانگلا ولی اور پیر نارا کے سینگ

مزید دلچسپ تحریریں