چھانگلا ولی اور پیر نارا کے سینگ
کہتے ہیں کہ اکبر بادشاہ نے 1581ٕ میں اٹک قلعہ کی بنیاد رکھی جب اکبر بادشاہ اٹک خورد دریاۓ سندھ سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک مجذوب پر پڑی جو دریا کے کنارے ایک پتھر سے پاوں کی میل صاف کر رہا تھا بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ اس ملنگ کو علم نہیں ہے کہ جس پتھر سے وہ پاوں صاف کر رہا ہے یہ انتہاٸ قیمتی سنگِ پارس ہے بادشاہ کے الفاظ جب فقیر نے سنے تو سنگِ پارس دریا میں پھینک دیا یہ دیکھ کر بادشاہ حیران رہ گیا بادشاہ سوچ ہی رہا تھا کہ فقیر نے ایک اور پتھر پاوں صاف کرنے کے لیے اٹھایا تو وہ بھی سنگ پارس بن گیا بادشاہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ شخص اللہ کا ولی ہے
اولیا کرام کو اللہ نے طاقت دی ہوتی ہے وہ جیسا سوچیں ویسا اللہ کے حکم سے کر سکتے ہیں ایسی بہت ساری داستانیں اولیا کرام سے منسوب ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا
چھانگلا ولی موج دریا حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کے متعلق میں نے جب تحقیق کی تو سینہ بہ سینہ آنے والی معلومات کو اکھٹا کیا اور کتابی شکل دی ظاہر ہے ان میں کچھ باتیں سنانے والوں نے اپنی طرف سے بھی بیان کی ہوں گی لیکن میری کوشش نہ گدی نشینی کے لیے ہے اور نہ میرے خیال میں گدی نشینی اہمیت کی حامل ہے اگر گدی نشینی اتنی اہم ہوتی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سی بڑی درگاہ کو چھوڑ کر حضرت حسین علیہ السلام کربلا نہ جاتے میں تو صرف دنیا کے سامنے وہ باتیں لانا چاہتا ہوں جو نہ لکھی جاتیں تو ہماری نسل سے آگے آنے والی نسل میں ختم ہو جاتیں میرے لکھے ہوۓ واقعات کو گدی نشینی معاملات و مقدمات میں استعمال نہ کیا جاۓ
کیونکہ میری تحقیق نوجوان نسل کے لیے ہے جو اولیا کرام کی سیرت پر چل کر سیرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ سکیں اور سرکار کی سیرت تک جانے کے لیے نوجوانوں کو غلاظتوں سے ہٹا کر دین کی طرف بلانا ہے میرا مقصد بھی اس شاعر کی طرح ہے جس نے یہ شعر کیا خوب لکھا ہے
تم شجر کو ذرا دلاسا دو
میں پرندے بلا کے لاتا ہوں
چھانگلا ولی موج دریا حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ اور پیر نارا ایک ہی نسب سے تعلق رکھتے تھے جن کے متعلق مجھے ایک اور کرامت ملی جسے میں لکھنے کے لیے اپنے گاوں سے دندی کی طرف گیا
پنڈی گھیب کے ملحقہ گاٶں دندی کے سید غدیر عباس نقوی کے مطابق پیر نارا کااصل نام پیر سید محمد حسین نہرہ ہے اور یہ بزرگ سید علی بن سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاریؒ کی اولاد میں سے تھے اور ان کی اولاد میانوالی،چکڑالہ، موچھ اور ڈھیر امید علی شاہ میں آباد ہیں
حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کا بیڑہ جب دریا سندھ میں سُبُک روی سے بہہ رہا تھا۔ تو بھکر کے نزدیک ایک بزرگ پیر نارا چلہ کشی کر رہے تھے۔ جب اُن کی نظر پتھر کے بیڑے پر پڑی تو انہوں نے سوچا کہ میرے علاقہ میں یہ کون شخص پتھر کا بیڑہ دریا میں چلا کر کرامت دکھا رہا ہے۔ تو آپ نے اس غار نما جگہ کے سوراخ سے سر باہر نکالا اور کہا کہ
اے پتھر کے بیڑے ڈوب جا !
بیڑہ ڈوبنا شروع ہوا تو حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ نے نگاہِ ولایت سے دیکھا کہ کس نے بیڑے کو ڈوبنے کا حکم دیا ہے ۔ اچانک غار کے سوراخ پر نظر گٸ تو فوراً کہا اے سینگ والے !
تو نے میرا بیڑہ ڈبونے کی کوشش کی ہے ۔ یہ کہنا تھا کہ پیر نارا کے سینگ نکل آۓ وہ غار کے سوراخ میں پھنس گۓ جب زور لگانے پر بھی نہ نکل سکے تو چھانگلا ولی موج دریا حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ سے معافی مانگی آپ نے کہا کہ میرے بیڑے کو تیرنے کا حکم دے تو سینگ غاٸب کر دوں گا ۔ چنانچہ پیر نارا نے بیڑے سے کہا کہ دوبارا تیرنا شروع کردے بیڑہ تیرنا شروع ہو گیا تو آپ نے دعا مانگی اے اللہ اس کے سینگ غاٸب کر دے
آپ کی دعا فورًا قبول ہوٸ اور اسکے سینگ سر پر ختم ہوگۓ لیکن اس کے نشان باقی رہے کہتے ہیں کہ آج بھی ان کی نسل میں سینگوں کے نشان باقی ہیں ۔ واللہ اعلم
بزرگان دین ایک دوسرے پر اپنی ولایت آزما کر یقین کی پختگی اور لوگوں کا ایمان بڑھاتے تھے۔ تاکہ عام مسلمان بھی قربِ الٰہی حاصل کر کے وحدانیت کے مزے لے سکیں۔
وہ قدسی صفات کے مالک قرآن سے جڑے رہتے تھے اس لیے وہ فکری عفت سے سرشار تھے بقول حضرت محمد اقبالؒ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوۓ تارکِ قرآن ہو کر
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں بھی نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔