گیس بلنگ سلیب میں تبدیلی: عوام کا چولہا بجھ جائے گا
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
[email protected]
عوام کے ایک بری خبر یہ ہے گیس بلنگ سلیب میں تبدیلی کردی گئی ہے اس سے غریب عوام کا چولہا بھج جائے گا لیکن امیروں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ گزرے برسوں میں پاکستان میں گیس اور بجلی کے مسائل اور ان کے اثرات نمایاں طور سامنے آرہے رہے ہیں۔ گیس جو گھریلو اور صنعتی دونوں سطحوں پر بنیادی ضرورت ہے، کی قیمتوں اور سلیب سسٹم میں تبدیلیاں عام صارف خصوصاً غریب صارفین کے لیے مالیاتی مشکلات کا سبب بنی ہیں۔ ایس ایس جی سی (سدرن گیس کمپنی) کی جانب سے حالیہ اقدامات میں کیے گئے ہیں جو فروری 2023 میں متعارف کرائے گئے تھے، ایک تبدیلی دیکھی گئی جس میں نومبر تا فروری کے مہینوں میں 90 یونٹ سے زیادہ گیس استعمال کرنے والے صارفین کو نان پروٹیکٹڈ کسٹمرز کے زمرے میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں گیس کے نرخوں اور سلیب سسٹم کا مسئلہ گزشتہ دہائیوں سے موجود ہے۔ ابتدا میں گیس کی قیمتوں کو سبسڈی کے ذریعے قابو میں رکھا گیا تاکہ عام افراد کو توانائی تک رسائی ممکن ہو۔ تاہم بڑھتے ہوئے مالی خسارے اور توانائی کے بحران نے حکومت کو مختلف اصلاحاتی اقدامات کرنے پر مجبور کیا، جن میں سلیب سسٹم بھی شامل ہے۔
2023 کی تبدیلی کا مقصد ان صارفین کو مزید قیمتیں ادا کرنے پر مجبور کرنا تھا جو زیادہ گیس استعمال کرتے ہیں تاکہ گیس کے وسائل کا بہتر استعمال کیا جا سکے۔ لیکن اس فیصلے کے اثرات خاص طور پر نچلے طبقے پر پڑے ہیں۔
ایس ایس جی سی کے حالیہ بلنگ نظام کے مطابق نان پروٹیکٹڈ کسٹمرز سے مراد وہ صارفین ہیں جو نومبر سے فروری کے کسی بھی ایک ماہ میں 90 یونٹ سے زائد گیس استعمال کریں گے۔ تو ان کی بلنگ عام پروٹیکٹڈ کسٹمرز کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوگی۔ ان کو پورے سال ایک فکس ڈپازٹ کے طور پر 1000 روپے ادا کرنا ہوں گے۔
پروٹیکٹڈ کسٹمرز سے مراد وہ صارفین ہیں جو 90 یونٹ یا اس سے کم استعمال کرتے ہیں۔ ان صارفین سے صرف 400 روپے سالانہ فکس ڈپازٹ چارج کیا جائے گا۔
اس فیصلے کے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ نان پروٹیکٹڈ کسٹمرز کے لیے اضافی بلنگ کا مطلب یہ ہے کہ ایک عام گھرانہ بھی سردیوں میں غیر ضروری مالی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔
گیس کے استعمال کو 90 یونٹ سے کم رکھنے کے لیے صارفین کو اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی، جیسے کہ گیس سلینڈر کا استعمال لازمی ہوگا۔
یہ نظام متوسط طبقے اور نچلے طبقے کو زیادہ متاثر کرے گا کیونکہ ان کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں۔
عوام کے لیے ایک تجویز ہے کہ گیس کے استعمال میں محتاط رویہ اپنائیں سردیوں کے مہینوں میں گیس کا استعمال کم رکھنے کے لیے پانچ دن سلینڈر کا استعمال کریں تاکہ یونٹ 90 سے تجاوز نہ کرے۔
حکومتی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نچلے طبقے کے لیے سبسڈی بحال کرنے اور سلیب سسٹم میں نظرثانی کی ضرورت ہوگی تاکہ غریب کا چولہا جلتا رہے۔
گیس کے محفوظ استعمال اور بچت کے طریقوں پر عوام کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ خود کو اضافی مالی بوجھ سے بچا سکیں۔
گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے حکومت کو متبادل توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی اور بائیو گیس سسٹم کو فروغ دینا چاہیے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ گیس کے بلنگ سسٹم میں تبدیلیاں عام اور غریب صارفین کے لیے انتہائی مشکل اور چیلنجنگ ہیں لیکن احتیاطی تدابیر اور کم استعمال کے ذریعے ان کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پالیسی کو عوام دوست بنائے اور توانائی بحران کا ایسا حل پیش کرے جو معاشرے کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہو اور غریب کا چولہا جلتا رہے۔
Image by LEEROY Agency from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔