سید حبدار قائم نقوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے ہے جو شعرو ادب کے لحاظ سے بہت ہی زرخیز ہے۔ سید حبدار قائم نقوی خانوادہُ سادات کے چشم و چراغ ہیں اور ایک عرصہ سے علم و ادب کی خدمت کررہے ہیں۔ سید حبدار قائم نقوی کو اردو اور پنجابی میں شعر کہنے اور نثر لکھنے کا ملکہ حاصل ہے، آپ ایک سچے اور کھرے انسان ہونے کیساتھ ساتھ باکمال اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک بھی ہیں۔ سید حبدار قائم نقوی صاحب پاک آرمی میں اعلٰی منصب پر اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں، یعنی آپ کو ادب خدمت کیساتھ ساتھ قوم کی خدمت کرنے اور اپنی دھرتی ماں کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا بھی شرف حاصل ہے اور آپ کا شمار وطن عزیز کے غازیوں میں ہوتا ہے۔ سید حبدار قائم نقوی پاک فوج میں اپنی شاندار سروس پوری کرنے کے بعد اب ایک پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی میں سیکیوریٹی سپروائزر کے منصب پر فائز ہیں ۔ سید حبدار قائم نقوی اپنی تحریروں میں بڑی سے بڑی بات سادگی اور اختصار کے ساتھ بیان کرجاتے ہیں اور اپنی بات سلیس زبان میں قاری کے دل و دماغ میں منتقل کرنے کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔ آپ کی کہانیاں دلچسپ معلوماتی اور سبق آموز ہوتی ہیں اور ان میں ایک خاص قسم کی مقصدیت ہوتی ہے اور یہی وہ بات ہے جو سید حبدار قائم نقوی کو اپنے ہمعصر لکھاریوں میں ممتاز کرتی ہے۔آپ کی تحریریں ملک پاکستان کے قومی اخباروں اور معیاری رسائل و جرائد میں باقاعدگی کیساتھ چھپتی رہتی ہیں۔ اور آپ اپنی منفرد تحریروں کی بدولت شہرت کے تمام بام و در عبور کر چکے ہیں۔ آپ کا منفرد اسلوب ہی آپ کی پہچان ہے۔ سید حبدار قائم نقوی سے میری شناسائی بہت ہی پرانی ہے دوستی کے اس سفر میں میں نے انہیں ہمیشہ ایک شفیق بھائی، وفادار دوست،اور عظیم انسان پایا ہے۔ بلاشبہ سید حبدار قائم نقوی کا شمار کہنہ مشق اور مستند لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں آپ کے دو نثری مجموعے (1) نماز شب اور (2) چھانگلا والی موج دریا شائع ہو کر علمی و ادبی حلقوں سے داد تحسین وصول کر چکے ہیں اور دو مجموعے "افلا یتدبرون” (اردو نثر) اور "رہیں شاعری میں آپ ” (اردو نعتیہ شاعری کا مجموعہ) زیر طبع ہیں جبکہ زیر نظر کتاب ” اکھیاں وچ زمانے” آپ کا تیسرا مجموعہ ہے جو کہ پنجابی زبان میں سید حبدار قائم نقوی کی لکھی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ ہے جسے ادارہ جمالیات اٹک نے بڑی اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے اور یہ ضخیم مجموعہ 174
صفحات پر مشتمل ہے۔ اس نثری مجموعے کا انتساب آپ نے حضرت سائیں محمد جاوید اقبال طور قادری اور غلام ربانی فروغ کے نام منسوب کیا ہے۔
سید حبدار قائم نقوی کا تعلق چونکہ ایک روحانی اور مذہبی گھرانے سے ہے اور آپ کے دوست احباب کیساتھ ساتھ آپ کے عقیدت مندوں کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ نے فوج میں اپنی تعیناتی کے دوران بہت سے نشیب وفراز دیکھے بہت سے مناظر دیکھے جو آپ کی آنکھوں میں سما گئے جنہیں لفظوں کا پیرہن پہنا کے آپ نے قاری کے سامنے رکھ دیا، اور میرے خیال کیمطابق یہی آپ کی اس کتاب کا موضوع بنا۔
کتاب ھٰذا میں کل 50 سٹوریاں شامل کی گئی ہیں اور اسے تین مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب ” سلام پاک فوج” کے عنوان سے ہے جس میں 15 کہانیاں شامل ہیں اور دوسرا باب ” بابا معصوم بادشاہ” کے نام سے ہے اور اس میں بھی 15 کہانیوں کو منتخب کیا گیا ہے جبکہ تیسرا اور آخری باب ” متفرق واقعات” کے نام سے 20 کہانیوں پر مبنی ہے۔ تنقیدی آراوُں میں سجاد حسین سرمد کی آراء شامل ہے جبکہ ” مڈھ آلی گل ” کے عنوان سے مصنف کتاب ھٰذا کا مضمون شامل ہے۔ صفحہ نمبر14 پر اختر ہاشمی کے کلام "بول نہ وڈا بول فقیرا” سے متاثر ہو کر سید حبدار قائم نقوی کے قلم سے لکھا عارفانہ کلام اس مجموعہ نثر کی اہمیت میں اضافہ کررہا ہے۔ نمونہُ کلام ملاحظہ کیجیئے وہ کہتے ہیں کہ:۔
شہہ رگ توں وی نیڑے جیہڑہ
آل دوآلے اس دا چہرہ
رہندہ تیرے کول فقیرا
دل دے تالے کھول فقیرا
پہلی کہانی "سیاچن دا وفادار” کے عنوان سے ہے جس میں مصنف نے گلگت سے سیاچن جانے پر راستے میں نظر آنے والے خوبصورت مناظر اور موسمی تبدیلیوں کو قلم بند کرنے کیساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کا طرز زندگی حسن سلوک اور ان کی مہمان نوازی کی تعریف و توصیف بھی بیان کی ہے۔ اور خاص کر ایک کتے کا تذکرہ کیا جس کی بدولت برفباری کی زد میں آکر برفانی تودوں کے نیچے دھنس جانے والے آرمی کے جوانوں کا سراغ ملا، اس کہانی کو پڑھ کر اللہ تعالٰی کی ذات کے فرمودات یاد آجاتے ہیں جس طرح اصحاب کہف کیساتھ کتے نے وفا کی تھی وہ پورا قصہ قرآن پاک میں موجود ہے۔ اس کے بارے میں میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ خالق کائنات جس طرح سے چاہے اپنے پیاروں کی حفاظت فرماتا ہے۔
سیاچن، روح تے قرآن جس میں میسر حیات کی شہادت کا واقعہ پڑھنے کو ملا جسے پڑھ کر میرا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ ہمارے فوجی بھائی اتنی مشکلات میں بھی یاد خدا سے غافل نہیں رہتے۔
سیاچن،جاں نثار پتھر اور لاش بھی بڑی متاثرکن کہانی ہے جس میں فوج کے نظم و ضبط اور فوجی جوانوں کے بلند حوصلے بیان کیئے گئے ہیں کہ ملک و ملت کی محبت میں ہمارے فوجی جواں کس طرح برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں پہ یخ بستہ راتوں میں موسم کی تلخیاں جھیل کر جاڑے کے موسم میں تمام دنیاوی کاموں سے بے خبر نعرہُ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کے سامنے اک سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔
سیاچن ایک ایسی جگہ ہے جہاں جانے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے انسان کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہو کے رہ گیا ہو، یہاں کا ہر لمحہ صبر آزما ہونے کیساتھ ساتھ اپنے ہمراہ کئی تلخیاں لیئے ہوتا ہے، یہ تو ہمارے فوجی جوانوں کا بلند حوصلہ ہے کہ وہ موسمی تبدیلیوں سے بھی اپنے آپ کو بچاتے ہیں اور دشمن کی گولیوں سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں، میں پاک آرمی کے تمام جوانوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔
سید حبدار قائم نقوی کی یہ کہانیاں پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ قاری کی انگلی پکڑ کر گلگت اور سیاچن کی سیر کروا رہے ہیں اور فوج کی خدمات کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں اپنے اندر ایک مکمل سفرنامے کا لطف لیئے ہوئے ہیں۔سید حبدار قائم نقوی نے سیاچن کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ قابل تحسین ہے۔
دوسرا باب ولیُ کامل حضرت بابا حاجی امام رحمة اللہ علیہ سے منسوب قصہ سے شروع ہوتا ہے جس میں اللہ تعالٰی کے اس کامل ولی کی کرامات کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں انہوں نے اپنی ولیت کے بل بوتے پر میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور خدا کی وحدانیت پر زور دیا، چشمہ جاری کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا کہ ” فقیر رب کائنات کی نشانیاں دکھاتے رہتے ہیں اور لوگوں کے من کی پیاس بجھاتے رہتے ہیں، اور کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو پیاس بجھانے کے بعد اپنی نہ مانیں گے بلکہ اپنے پالنے والے رب کی مانیں گے، اور اگر خالق اکبر کی مانیں گے تو زمین کی ہر چیز ان کیلئے مسخر کردی جائے گی”۔ تاہم اس چیپٹر کی ہر کہانی اللہ تعالٰی کے کامل ولیوں اور بزرگان دین کے معجزات اور ان کی کرامات اور ان کی طرف سے کی گئی دین کی تبلیغ کے واقعات سے بھری ہوئی ہےاور اپنے اندر تصوف کے کئی رنگ سموئے ہوئے ہے جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سید حبدار قائم نقوی کا تصوف سے گہرا لگاوُ ہے اور ولیوں سے دلی محبت ہے یہی وجہ ہے کہ آپ اولیاء اللہ کی کرامات کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔
اس مجموعہ میں شامل تمام کہانیاں دلکش اور اپنی مثال آپ ہیں جن میں معیار کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ سید حبدار قائم نقوی کی اس کتاب کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سید حبدار قائم نقوی نے جو کچھ دیکھا جو کچھ سنا جو کچھ پرکھا یا محسوس کیا ان سب نظاروں کو انہوں نے لفظوں کے روپ میں سپردقلم کر کے صفحہُ قرطاس کی زینت بنا دیاہے۔ سید حبدار قائم نقوی کو اس مجموعہ کی کامیاب اشاعت پر میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کے روشن ادبی مستقبل کیلئے دعا گو ہوں۔
تبصرہ نگار: سید مبارک علی شمسی
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 thoughts on “اکھیاں وچ زمانے”
Comments are closed.