آخر کبھی تو ایسا ہونا ہے کہ اس دنیا سے ظلم و زیادتی ختم ہو جائے۔ حقوق کا غصب ہونا بند ہو جائے اور امتیازات مصنوعی جاتے رہیں
فلسفہ
یہ بات نہیں ہے کہ اگر بہت بڑی اکثریت اسی ڈگر پر چل رہی ہے اور ظلم زوروں پر ہے تو کوئی بھی اصلاح حال کے لیے کام نہیں کر رہا۔ نہیں بہت سی ایسی تنظیمیں،
ہم خواہش ہی کر سکتے ہیں اور دعائیں اور التجائیں رب ِ کائنات کے حضور کہ وہ ہمارے گناہ، ہماری کج عملیاں،گستاخیاں
اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں فرقہ بازی اور تفرقہ پسندی سے سختی سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ صرف دو طرح کے انسان ہو سکتے ہیں
ظلم و فساد کا خاتمہ اور دنیا میں امن، انصاف، خوشحالی، بین الاقوامی تعمیر و ترقی اور بین المذاہب اشتراک کیسے ممکن ہے؟
عرصہ ہوا سوچ رہا تھا کہ اپنے خیالات جو رہ رہ کر ذہن میں اٹھتے ہیں انھیں تحریر میں لاؤں اب جب کہ زندگی کے چوالیس (44) سالوں کے طلوع و غروب دیکھ چکا ہوں۔