اس بار بھی 23 مارچ سنہ 2024ء کے موقع پر دیئے جانے والے تمغہ امتیازات میں کوئی سائنس دان، ماہر تعلیم، انجیئر یا ڈاکٹر وغیرہ شامل نہیں
دبئی نامہ
معروف دانشور اور فلاسفر والیٹیئر نے طنزا کہا تھا کہ: “بادشاہ کو چایئے تھا کہ بجائے شاہی گھوڑوں کے وہ اسمبلی میں بیٹھے گدھے بیچ دیتا”۔
امریکی سربیئن سائنس دان نیکولا ٹیسلا کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کی یادداشت جادوئی قسم کی تھی۔ وہ کسی کتاب کو ایک بار پڑھتے تھے
مصنوعی ذہانت جسے انگریزی زبان میں آرٹیفیشئل انٹیلیجنس (اے آئی) کہتے ہیں آنے والے ادوار میں انسان کی
لقمان حکیم سے ایک مقولہ منسوب ہے کہ: “بیماری جسم میں پیدا ہونے سے پہلے مریض کی روح میں جنم لیتی ہے۔”
ہمارے ہاں پالیسی سازی کا کوئی باقاعدہ شعبہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اعلی پائے کے سرکاری یا پرائیویٹ تھنک ٹینکس بھی نہیں ہیں
ہر وہ عالم صوفی کہلانے کا مستحق ہے جس کا علم دوسرے عام انسانوں کے لیئے نفع بخش اور باعث برکت ثابت ہو۔ یورپ کی سائنسی لیبارٹریوں
کسی ملک یا ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کا فرض نبھانا ذمہ داری اٹھانے کا ایک بہت بڑا بھاری بوجھ ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی ‘ٹیکسلا یونیورسٹی’ جس کے کھنڈرات موجودہ پاکستان میں ہیں، یہ قدامت کے اعتبار سے بلونیا یونیورسٹی سے زیادہ پرانی ہے، مگر بلونیا یونیورسٹی
دنیا پر آج تک جتنی بھی قوموں نے حکومت کی ہے وہ اپنے وقت کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قومیں تھیں۔