اٹک ضلع میں دو گاوں تھے جن کا نام غریبوال اور پڑی تھا دونوں کے درمیان ایک کرکٹ کا گراؤنڈ تھا یہی گراؤنڈ دونوں کے درمیان سرحد تھا
گوشہ اطفال
والدین نے بچے کا نام اشرف رکھا تھا گاوں میں سب اس کو اچھو کہتے تھے اچھو سارے گاوں کی آنکھوں کا تارا تھا اچھو نے گاوں کے سکول میں داخلہ لے
اس بار پھر بہت گرمی پڑی تھی۔ گاؤں کے سارے بچوں کے چہرے گرمی کی شدت سے جھلس گۓ تھے۔ ماں باپ نے اپنے بچوں کو گھر سے باہر نکلنے سے
بادشاہ کے دو ہی بچے تھے جن میں بیٹے کا نام شان اعظم جس کو پیار سے محل والے شانی کہتے تھے اور بیٹی کا نام سوہنی تھا جس کو سارے سونی کے نام سے
ایک گاوں میں شانی اور مانی دو دوست رہتے تھے۔ دونوں کے مزاج ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔
گاوں میں تنویر کے پاس لوگ امانتیں رکھتے تھے دور دور تک اس کی شرافت کے چرچے تھے جو شخص بھی گاوں سے باہر جاتا
ایک جنگل میں سنہرا ہرن رہتا تھا جس کی خوبصورتی کے دور دور تک چرچے تھے جنگل کے سارے جانور نہ صرف اسے دیکھنا چاہتے بل کہ اس سے دوستی کرنا
جیدی تیسری جماعت میں پڑھتا تھا سکول میں اُس کو استاد جو بھی سبق دیتے تھے وہ یاد کر لیتا تھا جب اسے ماں سکول کے لیے ٹفن تیار کر کے دیتی تھی
کسی جنگل میں ایک شیر اور لومڑی رہتے تھے جن کی دوستی کی دور دور تک دھوم تھی وہ مل کر شکار کرتے اور مل کر کھاتے تھے
ساری تتلیاں پھولوں کے ساتھ باتیں کر رہی تھیں اُن کے رنگ پھولوں کے رنگوں کے ساتھ ملتے جلتے تھے ان کے رنگوں نے باغ