کالج کے اساتذہ کو برق صاحب کی طرف سے مرزا صاحب کا مذاق اڑانا پسند نہ تھا۔ لیکن سب خاموش تھے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے
تاریخ
مباحثے اور مشاعرے اولڈ ہوسٹل میں ہوا کرتے تھے ۔ کالج کے پاس پانی کی فراہمی کے لئے اپنا کنواں تھا جہاں بیل جوت کر روائیتی طریقے سے پانی حاصل کیا جاتا تھا
کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ انجمن اتحاد طلباء یعنی اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن آگئے ۔ طلباء برادری تین واضح دھڑوں میں بٹ گئی ، چھاچھی گروپ ، قاضی خالد , احسن خان
اس زمانے میں سرگودھا کا معروف بدمعاش اور خوف کی علامت چراغ بالی کیمبل پور جیل میں بند تھا ۔ جیلر نے ملک صاحب کو بتایا کہ چراغ بالی ہمیں بہت تنگ کرتا ہے
اس اسٹیشن کی آخری بار لپائی اور مرمت شاید آخری وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے کروائی ہوگی ورنہ بارش کا پانی دھار باندھ کر ہم پر نہ گرتا
قلعے کے دروازے میں لگی کھڑکی کھولی تو اپنے وقت کی مشھور اور خوفناک رائفل 303 (تھری ناٹ تھری) کی بیرل نے ہمارا استقبال کیا
میں نے ضلع کچہری جاکر مبلغ 10 روپے کا اسٹامپ پیپر خریدا ، میں اور عاشق کلیم ، اپنے وقت کی معروف سواری ، تانگے میں بیٹھ کر ، امیدوار صاحب کے گاؤں پہنچے ۔
بھٹو مرحوم کی عادت تھی کہ اگر ضروری نہ ہو تو کسی کو بھی 5 سات منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیتے تھے
زمینداروں اور جاگیرداروں کے اس ضلع میں ، بھٹو مرحوم کے نعرہء سوشلزم کو لیکر ، کوئی امیدوار سامنے آنے کی جرآت نہیں کرپارھا تھا
ہماری آبادی میں ایک تحصیلدار صاحب تھے ، سردار سلطان محمود خان بسمل مرحوم ، انہوں نے اپنے بچوں کے اسکول آنے جانے کے لئے ، ایک خوبصورت گھوڑی تانگہ رکھا ہوا تھا