ملک مظفر نیزہ باز اور گھوڑ سوار تھے لیکن اس کے باوجود گاؤں میں کوئی کھیل کا میدان بنوا کر نہیں دیا۔
جغرافیہ
گاؤں کی گلیاں82 ۔1981 میں یونیسف ادارے کے تعاون سے بنی تھیں جو کہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ووٹ لینے والے وعدہ کرتے رہے ہیں
یہ گاؤں آج سے تقریبا پانچ سو سال پہلے ہندووں نے آباد کیا تھا جو تقسیم کے بعد انڈیا چلے گئے اور زمینیں اپنے مزارعین کے حوالے کر گئے ۔
جب اٹک کی سیر و سیاحت کا ذکر ہوتا ہے تو اسکی تاریخی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
مولانا محمد علی ؒ مکھڈی کے نا م سے منسوب کتب خانہ مکھڈشریف میں وا قع ہے۔ ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ میں وا قع یہ تا ریخی قصبہ جہا ں اپنے اند ر کئی خو بیا ں رکھتا ہے
اٹک کی وہ زمین جو دریائے ہرو میں سلطان پور سے نیچے کٹ لگا کر اور وہ زمین جو چشموں اور دوسرے ندی نالوں میں کٹاؤ ڈال کر سیراب کی جاتی ہے آبی کہلاتی ہے۔
آج میں جس علم کی شمع کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں وہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سپورٹس بورڈ پنجاب کا ایک بہت ہی احسن قدم ہے۔
یہ مزار ٹھیکریاں میں واقع ہے ۔آنکھوں کی بیماری میں مبتلا مریض دور دراز علاقوں سے یہاں آتے ہیں
ایک قدیم مسجد "مسجد زین العابدین”کو یہ خاص فضلیت حاصل ہے کہ یہاں شیعہ،وہابی،دیوبندی ایک جگہ نماز پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔