نگران وزیر اعظم پولیس گردی کا نوٹس لیں
روزنامہ "اوصاف” کے چیف ایڈیٹر مہتاب خان پی ٹی آئی کے امیدوار تھے اور نہ ہی وہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے جا رہے تھے کہ اسلام آباد پولیس نے دو روز پہلے رات پونے 2بجے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ اس واردات میں اسلام آباد پولیس کے 18 سے زائد مسلح اہلکاروں نے حصہ لیا۔ انہوں نے گھر کا مین گیٹ توڑا اور اسلحہ لہراتے ہوئے زبردستی گھر کے اندر داخل ہو گئے، ڈیوٹی پر مامور گارڈز کو ٹھکانے لگانے کی دھمکیاں دیں، گالیاں دیتے رہے اور انہیں بری طرح زد و کوب بھی کیا۔
اس سے قبل کاغذات نامزدگی کی وصولی کے پہلے دن "پولیس گردی” کے کچھ اور واقعات بھی رونما ہوئے جس سے انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس نوع کا پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب میانوالی سے بیرسٹر عمیر خان نیازی کے والد ریٹائرڈ جج ضیاءاللّٰہ نیازی اپنے بیٹے کے کاغذات نامزدگی لے کر نکلے ہی تھے کہ پنجاب پولیس کے "قابل فخر” جوانوں نے ایک بوڑھے باپ سے اس کے بیٹے کے کاغذات نامزدگی چھین لیئے۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر پولیس نے یہ فریضہ نبھاتے وقت بطور نذرانہ ان سے کچھ بدتمیزی بھی ضرور کی ہو گی۔
ایسا ہی ایک واقعہ خوشاب میں پیش آیا اور اسی طرح کے واقعات کی اطلاعات دوسرے شہروں سے بھی آئ ہیں جب پنجاب پولیس کے بہادر جوان دیواریں پھلانگ کر دروازے توڑتے رہے اور ایسے افراد کی تلاش کرتے رہے جو کاغذات نامزدگی لے کر آئے تھے جیسا کہ اسی صبح گوجرہ کے ایک گھر پر دھاوا بولا گیا، جہاں سے زیر عتاب پارٹی کے ایک امیدوار اسامہ حمزہ کو اٹھا لیا گیا۔
یہ الیکشن کے پہلے مرحلہ کا آغاز ہے، ابھی کاغذات جمع ہوں گے اور اس کے بعد ان کی جانچ پڑتال ہو گی۔ جبکہ ابھی سے ناپسندیدہ امیدواروں کے خلاف پکڑ دھکڑ، تشدد اور انہیں "لاپتہ” کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پولیس ایک مست اور بے مہار ہاتھی کی شکل اختیار کرتی نظر آ رہی ہے جس سے اس بات کی نشاندہی دہی ہوتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پولیس ایسی مزید سخت کاروائیاں انجام دے سکتی ہے جن کو چھپانے کے لیئے جانے انجانے میں نگران حکومت آزادی صحافت کو دھمکانے اور دبانے کی سازش کر رہی ہے۔
اوصاف میڈیا گروپ ABN کے چیئرمین مہتاب خان کے گھر پر حملہ ملک کے چوتھے ستون "صحافت” پر حملے کی ابتداء ہے۔ جو اخبارات، صحافی اور میڈیا گروپس "زرد صحافت” سے انکار کرتے ہوئے خبروں کی ایمانداری سے ترسیل کرتے ہیں یا غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی قسم کی سودے بازی کرتے ہیں اور نہ ہی حق سچ پر مبنی صحافت کرنے کے لئے اپنے ضمیر سے غداری کرتے ہیں انہیں سب سے پہلے زیرعتاب لایا جاتا ہے۔ آئیندہ صحافیوں کے خلاف ایسے مزید ناخوشگوار واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ اس سے قبل ضیاءالحق کے دور میں اور حال ہی میں صحافی برادری پابندیوں، حکومتی تشدد، اغواء، ملک بدری اور نامعلوم قتل وغیرہ کا نشانہ بنتی چلی آئی ہے جس میں بیرون ملک ارشد شریف کا نامعلوم قتل اور کچھ عرصے تک عمران ریاض کی گمشدگی شامل ہے۔ "اوصاف” گروپ کے مالک کے گھر پر حملے کا یہ واقعہ بھی بہت دور رس منفی نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس مد میں حکومت کو احتیاط اور اعتدال سے کام لینا چایئے اور صحافی بھائیوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس واقعہ کے خلاف مل کر آواز اٹھائیں تاکہ اس قسم کا کوئی تلخ واقعہ دوبارہ پیش نہ آ سکے۔
اب جبکہ جمعہ کے روز قبل از دوپہر عمران خان کی ضمانت کی خبر عام کی گئی جس پر پی ٹی آئی ورکروں میں ابھی مٹھائی تقسیم کرنا ختم نہیں ہوئی تھی کہ بعد از دوپہر نہ صرف عمران خان کی نااہلی کی خبر سنا دی گئی بلکہ تحریک انصاف سے "بلہ” کا نشان چھین کر اسے الیکشن ہی سے آو’ٹ کر دیا گیا۔
کہاوت ہے، "ظلم کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔” پورا پاکستان جانتا ہے کہ ملک کی سب سے مقبول جماعت "تحریک انصاف” کے ورکروں پر ملک بھر کی پولیس نے ایک ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز ڈنڈے اور لاٹھیاں کھاتے رہے ہیں، اپنے گھروں کی اشیاء کو ٹوٹتے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال ہوتے اور اپنے گھر والوں کو طرح طرح کی ازیتوں سے گزرتے ہوئے دیکھتے رہے ہیں جس کے ایک ہی روز میں اب سرکردہ صحافتی ادارے کے مالک کو بھی شامل کر لیا گیا۔
ابھی ابھی یہ کالم لکھنے کے دوران اطلاع ملی ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، پیرمحل کے حلقے سے پی ٹی آئی کی سابقہ ایم پی اے سونیا علی رضا کو بھی پولیس اٹھا کر لے گئی ہے۔ تحریک انصاف پہلے شکوہ کناں تھی کہ اسے "لیول پلیئنگ فیلڈ” نہیں مل رہی۔ بھٹو صاحب نے 1977ء میں بھی یہی غلطی کی تھی، جنہوں نے ججز کی بجائے انتظامی افسران کو آر اوز بنایا تھا۔ انہوں نے لاڑکانہ کے حلقہ سے اپنے خلاف الیکشن لڑنے والے امیدوار کو بھی اغوا کروایا تھا تاکہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی نہ بھر سکیں۔ اس وقت لاڑکانہ میں کمالیہ سے تعلق رکھنے والے خالد خان کھرل پولیس کمشنر تھے جنہوں نے اغواء کا یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا، جس کے بدلے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے خالد کھرل (جنہیں بے نظیر بھٹو اس وقت انکل کہتی تھیں) کو اپنے پہلے دور حکومت میں اپنا سیاسی مشیر لگا لیا تھا۔ بعد میں پولیس کے اغواء کی اس کاروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ واقعہ خود بھٹو صاحب ہی کے گلے میں پڑ گیا۔
اس وقت بھی اسلام آباد اور پنجاب پولیس اس سے ملتی جلتی کارروائیوں میں ملوث نظر آ رہی ہے۔ اوصاف کے مالک کے گھر پر پولیس کا یہ حملہ حکومت کے لئے ایک "ٹیسٹ کیس” ہے۔ اس سے پہلے کہ لاہور اور پنجاب کے مختلف شہروں میں ہونے والے جعلی پولیس مقابلوں میں مخالفین کو ٹھکانے لگایا جانا شروع ہو جائے، امن و امان، خانہ جنگی یا بھٹو دور میں پیش آنے جیسا کوئی دوسرا بڑا "سانحہ” پیش آ جائے، نگران وزیراعظم صاحب کو چایئے کہ وہ اس پولیس گردی کا فوری طور پر نوٹس لیں۔
Title Image by Diego Fabian Parra Pabon from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔