تبصرہ نگار: سید حبدار قائم
تاریخ کا سینہ اب بھی چھلنی ہے اور اس سے لہو ٹپک رہا ہے اس لہو کی کہانی کو جب بھی پڑھا گیا یہی لگا کہ یہ زخم ابھی تک ہرے ہیں
جب کیمبلپور جل رہا تھا ایک ایسی ہی دستاویز ہے جس نے وقت کی دھول میں دبے ہوۓ واقعات کو سامنے لا کھڑا کیا ہے یہ قیامت خیز اور لرزہ طاری کرنے والے سچے واقعات ہر پل رلاتے ہیں ان میں کہیں لٹیاں ہوئ بیٹیوں کی سسکیاں ہیں تو کہیں جبراً انسانیت کا قتل ہے کہیں جنسی حراسگی رلاتی ہے تو کہیں معصوم بچوں کی دریدہ لاشیں لکھتے ہوۓ قلم روتا ہے اور کاغذ بڑی مشکل سے یہ درد اپنے شفاف سینے میں سمیٹتا ہے میرے طاہر اسیر کو کون نہیں جانتا کہ ان کا کام ان کی اوجِ فکر کی رعنائیوں کا مظہر ہے شعر لکھیں تو قرطاس جھوم جاۓ نثر لکھیں تو الفاظ سے خوشبو آۓ تاریخ کا سینہ ایسے خوبرو قلم کاروں کے قلم سے ادب کی کھیتیاں اگاتا ہے
تاریخ کا سینہ عساکر کی رزم آرائیوں افراد کی خوشہ چینیوں شعرا کی بزم آرائیوں اور عناصر کی رنگینیوں کا دفینہ ہے اس میں طاہر اسیر جیسے شعرا کا لہو خوشبو بکھیرتا ہے تاریخ کے زخموں کی سڑانڈ طاہر اسیر نے قلم بند کی جسے
جب کیمبلپور جل رہا تھا کا نام دیا گیا
پروین ملک نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ
” دھرتی، جس پر انسان نے پہلا قدم رکھا ہو، جہاں کسی نے پہلا لفظ سیکھا ہو، جس دھرتی کی ہواوں نے اسے تھپک تھپک کر سلایا ہو وہ دھرتی اس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے، اپنی ذات کے حصار سے کوئ کیسے بھاگ سکتا ہے“
پروین ملک صاحبہ وہ دھرتی اس شخص کا حصہ نہیں بنتی بل کہ وہ شخص اس دھرتی کی خوب صورت کونپل بن رنگ و نور بکھیرتا جاتا ہے اور اس کا حصہ بن جاتا ہے
احمد علی ثاقب نے لکھا ہے کہ
”بٹوارہ محبت کا ہو یا نفرت کا، دونوں صورتوں میں قیامت خیز ہوتا ہے“
ایک اور جگہ احمد علی ثاقب لکھتا ہے
” کیمبل پور کی خوش بختی کہ اس شہر کا مرثیہ لکھنا طاہر اسیر کے حصہ میں آیا جو ہمیں ماضی کے ان بند دریچوں میں لے جاتا ہے جہاں تار تار چادریں، پیروں تلے رلتی پگڑیاں ٹوٹتی چوڑیاں پھندے بنتی اوڑھنیاں گرتی ہوئ دیواریں خاموش ہوتی آوازیں دم توڑتی حسرتیں جلتے بجھتے کواڑ کرچیوں میں بٹتے خواب اور لہو تھوکتے منظر صاف دکھائ دیتے ہیں
احمد علی ثاقب نے ان الفاظ میں آزادی کے نام پر کھیلی جانے والی ہولی کو چند سطروں میں سمو دیا ہے ان الفاظ سے اپنی ادبی اور تحریری گرفت منوا لی ہے کیوں کہ ایسے الفاظ رقم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے یہ خون جگر سے الفاظ کشید ہوتے ہیں جنہیں تاریخ اپنے سینے پر میڈل کی طرح سجاتی ہے
طاہر اسیر اپنی کتاب کے موضوع کیمبل پور میں لکھتے ہیں
” یہ شہر جو کبھی مندروں میں بجتی گھنٹیوں کی صداوں میں ڈوب ڈوب جاتا تھا آج اپنی ماضی کے مزار پر مرثیے سناتا ہے“ صفحہ نمبر 33
آبادی کی گہما گہمی نے جتنا ماحول کو متاثر کیا ہے اتنا ہی ثقافت کی توڑ پھوڑ کی ہے باہر سے آۓ ہوۓ مہاجرین نے اس کی فضا کی خوشبو تک بدل ڈالی اس کی فضا جو رنگ و نور میں دھلی ہوئی تھی شور و غل اور ٹریفک کے بے ہنگم شور نے آلودہ کر دی مندروں کی گھنٹیاں آزادی کے قہقہوں میں دب گئیں
طاہر اسیر مزید کیمبل پور کے نام کی بابت لکھتے ہیں
”سرکولن کیمبل 1857 کا نا قابل فراموش کردار تھا اسی کے احسانات کی بہ دولت ہندوستان کی تمام دولت انگریز کے قبضے میں آئ تھی چنانچہ اس کے نام پر ایک شہر بسایا گیا جسے آج کیمبل پور کہتے ہیں“ صفحہ نمبر 37
میرے خیال میں اس شہر کو ماضی میں کیمبل پور اور آج یعنی حال میں اٹک کہتے ہیں جو سچائ ہے اسے جملوں سے بہکایا نہیں جا سکتا
کیمبل پور کا نقشہ بور سورتھ نے بنایا تھا جس کے ہاتھ فنِ تعمیر سے آشنا تھے طاہر اسیر اس کے متعلق لکھتے ہیں
” بور سورتھ بلا کا جمال پسند تھا شہر کے نقشے میں اس نے اتنے رنگ بھرے کہ اسے یاد گار بنا دیا کیمبل پور اسی کی جمال پسندی کا مظہر ہے“ صفحہ نمبر 42
شہر کو چار وارڈوں میں تقسیم کیا گیا اور مردم شماری کرائ گئ جس کے متعلق طاہر لکھتے ہیں
”جب چار وارڈ مکمل ہو گۓ تو 1911 میں اس شہر میں پہلی مردم شماری ہوئ ریکارڈ کے مطابق ان چار وارڈوں میں رہائش پزیر افراد کی کل تعداد دو ہزار نواسی تھی جن میں 570 سکھ ،713 ہندو ،241 عیسائ اور باقی مسلمان تھے“
جب ایسے حالات تھے تو شہر کا سکون دیدنی ہو گا انگریزوں نے اس وقت شہر کی جو سڑکیں بنائیں اس وقت کی آبادی کے لیے بہت زیادہ وسیع و عریض تھیں لیکن جب پاکستانی انگریزوں کا وقت آیا تو یہ سوۓ رہے جس کی وجہ سے بے ہنگم ٹریفک کا شور اور رش دیکھنے کو ملتا ہے اب اس شہر میں لاہور کی طرح لنک روڈ ہونا چاہیے افغانیوں کو اس شہر سے نکال کر پنجابیوں کو بسایا جاۓ کیوں کہ ایسا نہ کیا گیا تو یہ شہر مستقبل قریب میں افغان گردی کا شکار ہو سکتا ہے
بہرحال طاہر اسیر نے یہاں سے آگے شہر کے مختلف چوکوں کا ذکر کیا ہے
اس کے بعد اپنی کتاب میں جلاد طرز کے مسلمانوں کا ذکر کر کے آج کے مسلمان کو یہ بتاتے ہیں کہ
سکندر خان نے ایک مضمون میں لکھا ہے "1947 میں جب ملک کی تقسیم ہوئی اس وقت آگ اور خون کا کھیل جاری تھا شیطانیت اندھا ناچ ناچ رہی تھی ہندو مسلم فسادات جب عروج پر پہنچے تو کامل پور موسی کے مسلمانوں نے ہندوؤں کے اس مندر کو آگ لگا دی جس میں عورتیں اور بچے پناہ لیے ہوئے تھے ” صفحہ نمبر 197″
ہجرت ایک ایسا المیہ ہے جس میں جب گھر کا مکیں گھر کو چھوڑتا ہے تو گھر کے در و دیوار روتے ہیں درخت روتے ہیں پرندے روتے ہیں اور جانے والا تو پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر چکے ہوتے ہیں ایسے افراد کا کرچی کرچی دل نوحہ پڑھتا ہے اس کے بین اور چیخیں فضا کو رنجیدہ کر دیتے ہیں
طاہر اسیر کیمبل پور سے ہجرت کرنے والوں کے نام کے باب میں بہت سارے ناموں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے ہجرت کی ہے اور یہ لوگ صفحہ نمبر 200 سے لے کر 205 تک لکھے گئے ہیں
پنڈی گھیب کالج میں میں نے ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام ” جب امرتسر جل رہا تھا”
اس میں مصنف نے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں جو لکھا تھا اگر یہاں لکھا جاۓ تو کیمبل پور میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن جو ظلم جنونی سکھوں اور ہندووں نے کیے ہیں ان کی تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی مسلمان عورتوں کے سینے کاٹ کر کرپانوں پر چڑھانے والے سکھ تھے معصوم بچوں کی لاشوں پر بھنگڑے ڈالنے والے سکھ تھے دھان کی فصل میں چھپنے والی عورتوں اور بچوں کو زندہ آگ میں جلانے والے سکھ تھے ان کے ساتھ ہندو بلوائیوں نے بھی کثر نہیں چھوڑی وہ سکھوں سے کئ قدم آگے تھے ہماری تاریخ آنسووں سے لکھی گئ اس میں مسلمانوں کی آہوں اور سسکیوں کی آواز اب بھی گوجتی ہے ایک غیر مسلم لڑکی مہرو کی ڈائری اس قتل عام کی گواہ ہے جسے طاہر اسیر اپنی کتاب کے ایک عنوان
"ڈائری کا آخری ورق” میں لکھتے ہیں
"ہم امرتسر پہنچ چکے ہیں لگتا ہے کہ ہم آگ اور خون کے سیلاب سے گزر کر یہاں تک پہنچے یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ 22 ستمبر کو امرتسر ریلوے اسٹیشن پر ایک ٹرین جس میں چار ہزار ایک سو مسلمان سوار تھے انہیں ہمارے دھرم کے 41 سکھوں اور ہندوؤں جنونیوں نے گھیر لیا اور حملہ کر کے تین ہزار مسلمان مار دیے ایک ہزار زخمی کیے اور جب وہ ٹرین لاہور پہنچی تو اس میں صرف ایک سو مسلمان ایسے تھے جو زخمی نہیں تھے”
طاہر اسیر صفحہ نمبر 209 میں جھوٹے فرضی کلیم کے عنوان سے لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
"بٹوارا ہو چکا تھا صدیوں تک ایک دوسرے کی روح میں بسنے والے کہیں دور جا چکے تھے”
اور مزید ایک لائن میں ہجرت کے درد و الم کے متعلق لکھتے ہیں کہ
"برگد پیپل بوہڑ تالاب اور گلیاں سر بہ گریباں تھیں گھروں کے دالان اپنے اصل مکینوں کے لمس سے محروم ہو چکے تھے کچھ بھی نہیں بچا تھا اگر تھے بھی تو بس ویران سے گھر تھے جہاں دن رات خاموشی چھائی رہتی کسے معلوم تھا کہ خون کی ہولی کھیلنے کے بعد ایک اور ہولی منائی جائے گی جو ایک بار پھر انسانی جبلت کا پردہ چاک کر کے رکھ دے گی کون جانتا تھا کہ لا الہ الا اللہ کا نعرہ ء مستانہ صرف نعرہ ہی بن کر رہ جائے گا دونوں اطراف سے دکھائے جانے والے خوشنما منظر آنکھوں پہ بوجھ بن جائیں گے جنت نظیر وطن میں حرص و ہوس کی خاردار جھاڑیاں اگنے لگیں گی لالچ اور نفسا نفسی کا دور دورہ ہوگا دور بہت دور تک لوگ محض جائیدادیں جاگیریں اور کشادہ صحنوں والے گھروں کو ہتھیانے کے لیے عجیب عجیب طریقے اختیار کریں گے”
ایسی صورت میں کہاں کی مسلمانی اور کہاں کا دین جب جھوٹے کلیم بننے لگیں اور حقدار کا حق لوٹ لیا جاۓ مال غنیمت کے عظیم فلسفے کو لالچ اور طمع سے جھٹلایا جاۓ تو پھر ہم کافر سے بھی بد تر ہیں
کتاب کے آخر میں طاہر اسیر نے چند یاد گار تصاویر لگا کر تاریخ کی گواہی دیتی ہوئ شخصیات اور عمارات محفوظ کر لی ہیں طاہر کی کاوش آنے والے نسلوں کے لیے بیش بہا معلومات کا خزانہ ہے سر زمین اٹک میں لکھی جانے والی اس کتاب میں اہلیان کیمبل پور کی غلطیوں کا برملا اعتراف ہے ہم انسانیت کی دھجیاں اڑا کے رکھ دیتے ہیں ہمارا منشور انسان ہونا چاہیے لیکن ہمارا منشور انسان نہیں رہا ہم اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بتایا ہوا درس بھول چکے ہیں لالچ اور طمع ہمارا مقدر بن چکی ہے
آخر میں طاہر اسیر کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ پاک انہیں حیات خضر کے ساتھ ڈھیروں خوشیاں اور اولاد نرینہ عطا فرماۓ۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |