تحریر و تحقیق :
شاندار بخاری
مقیم مسقط
اس ڈیجیٹل دور میں جہاں معلومات کا ایک مکمل جہاں ہماری دسترس میں ہے وہیں پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ کمی ہے اسی طرح کی ایک گنجائش مجھے محسوس ہوئی وہ بھی یوں کہ اپنے شہر اٹک کے دورے پر گئے اکثر اگر مجھے گھر سے بازار اگر چل کر جانا پڑتا تو کبھی سمت کا تعین نہیں ہوتا تھا کبھی بے ہنگم ٹریفک میں پھنس کر اس ہجوم کیساتھ کسی اور سمت نکل جاتا پھر واپس پلٹتا اور گلیوں سے ہوتا ہوا کسی نا کسی راہ کو پکڑ کر کبھی منزل مقصود پر پہنچ جاتا کبھی شہر سے باہر نکل جاتا لیکن یہ سارا سفر انتہائی دلچسپ ہوتا تھا کیونکہ راستے میں پرانی عمارتوں کا آرکیٹیکچر مجھے بہت متاثر کرتا تھا اس میں کۂی عمارتوں پر ہندی / سنسکرت میں لکھے نام نقش ہیں ، تقسیم ہندوستان سے پہلے یہاں ہندو قومیں آباد تھیں یہ سب دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں کہ یہ سب اس زمانے میں انہوں نے کیسے بنایا ہوگا کون یہاں رہتا ہوگا اور اس کیساتھ یہ بھی خیال آتا کہ یہ شہر سب سے پہلے کس نے بسایا ہوگا کون کون یہاں سے گزرا ہوگا ، سکندر اعظم اور مغلوں کا تزکرہ تو تاریخ میں درج ہے۔
ہم اس شہر کو اٹک کے نام سے جانتے ہیں تھوڑا پیچھے چلیں تاریخ میں تو ہمارے والد اور ان کے بزرگ اسے کیمپبل پور کے نام سے پکارتے تو ایک ہی شہر کے دو ناموں سے بچپن سے ہی واقفیت ہو گئی تھی جیسے کسی شخص کے دو نام ہوتے ہیں عرفی اور حقیقی لیکن اس شہر کے تو دونوں نام حقیقی ہیں اور تاریخ میں رقم ہیں تو یہ جستجو ہوئی کہ یہ رکھے کس نے ان کے پیچھے کیا کہانی ہے کون سے کردار ہیں تو اسی جستجو میں جو حقائق تاریخ سے مجھے ملے وہ آج آپ احباب کیساتھ بھی بانٹتا چلوں۔
اٹک شہر جو کہ شمالی پنجاب کا ضلع ہے اور اس کا رقبہ 6857 مربع کلومیٹر ہے۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 266 میٹر (872.7 فٹ) ہے۔ اس شہر کا پرانا اوراصل نام صدیوں سے اٹک ہی تھا جو کہ تاریخ کی کتب میں بھی موجود ہے لیکن سنہ 1908 میں اس کا نام بدل کر کیمپبلپور رکھ دیا گیا اور اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اس شہر کا نیا نام حکومت وقت نے کافی سوچ بچار کے بعد اپنے ایک عظیم سابق فوجی جرنیل سَر کولن کیمپبل کے نام پر رکھا جو کہ نام رکھنے سے 45 سال قبل انتقال کر چکے تھے ۔
کولن کیمپبل کی پیدایش 20 اکتور 1792 میں ہوئی ( آج سے ٹھیک 230 سال قبل) پیدایش پر آپ کا نام کولِن میکلیور تھا۔ ان کے والد کا نام جان میکلیورتھا جو کہ ایک بڑھئی کا کام کرتے تھے ۔کولن میکلیور کل ملا کر 4 بہن بھائی تھے اور ان کی والدہ کا نام ایگنس کیمپبل تھا تو وہ بجائے اپنے والد کے اپنی والدہ کے قبیلے کو ترجیح دیتے اور انہی کا نام استعمال کرتے کیونکہ یہ اس زمانہ میں ایک طاقتور خاندان تھا بنسبت بڑھئی کہلانے کے ،تاکہ تعلیم اور روزگار کے اچھے مواقع مل سکیں (یاد رکھیں مغرب میں بھی لسانیت ، قومیت اور مذہب کے اعتبار سے تعلیم اور روزگار کے موقع فراہم ہوتے تھے)
ان کے نام سے منسوب ایک مشہور واقع یوں ہے کہ ان کے ایک رشتہ دار (چچا/ماموں) انہیں 1808 میں فوج میں بھرتی کروانے کیلئیے ڈیوک آف یارک کے پاس لے گئے جنہوں نے ان کے نام سے دھوکہ کھا کر انہیں ایک کیمپبل / معزز شہری سمجھتے ہوئے اس نام سے فوج میں بھرتی کروا دیا اور لوگ انہیں اس زمانے کے مشہور فوجی قائد میجر کیمپبل کا بیٹا سمجھنے لگے اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ، ہوا یوں کہ کولن کیمپبل کے ایک کزن پیٹر میکلیور جو کہ صحافی تھے انہوں نے ان کا بہت ساتھ دیا کیونکہ کچھ اخباری رپورٹر ان کی تقرری پر ان کے پیچھے پڑ گئے تھے کہ یہ 15/16 سال کا نوجوان کولن کیمپبل کون ہے اور جب یہ بھرتی ہوا تو اس وقت ڈیوک آف یارک لندن میں نہیں تھے بلکہ اگر ہوتے بھی تو ایسے کسی سے ملتے نہیں تو ان کی اس ملاقات میں کتنی سچائی ہے یہ جاننا چائیے لیکن کولن کیمپبل کی تقدیر میں جو لکھا تھا وہ ہو کر رہا۔ قصہ مختصر کولن کیمپبل جن کوبعدازاں انکی گراں قدر خدمات پرسر کا خطاب دیا گیا۔
تقسیم پاک و ہند سے پہلے ہندوستان میں برطانوی فوج کے سپہ سالارتعینات رہے اور اس سے قبل روس ، امریکہ سمیت خطے کے اہم جنگی محاذوں پر کامیابی سے خدمات انجام دے چکے تھے۔ میرے والد محترم کےلکھے ہوۓ قسط وار مضامین کیمپبل پور سے اٹک تک کی قسط نمبر اول میں وہ بتاتے ہیں کہ” سنہ 1857 کی جنگ آزادی کے وقت سر کولن کیمپبل برطانوی افواج کے سربراہ تھے ، ان ہی کی سوچ اور منصوبے کے مطابق ، ھندوستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے یعنی موجودہ خیبر پختونخواہ سے اٹھنے والی شورشوں اور اس علاقے میں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے ، تاریخی مقام اٹک اور دریائے اٹک ( سندھ) سے کچھ فاصلے پر ایک فوجی چھاونی قائم کی گئی ، جسے آج ہم آرٹلری سینٹر اور اس کی ملحقات کے نام سے جانتے ہیں ۔ چونکہ اس علاقے میں یہ ایک اہم آبادی تھی لھذا لینڈ مارک شناخت کی حیثیت اختیار کرگئی اور ہمارے بچپن تک ، ہم سے پہلی نسل کے افراد ( بزرگ ) کیمبل پور کو فقط ” چھاونی ” یا چھونڑیں کے نام سے پکارتے تھے ۔ ” (یہ مضمون آپ درج ذیل لنک کے زریعے پڑھ سکتے ہیں)
سر کولن کیمپبل نے کبھی شادی نہیں کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد لندن میں مقیم رہے جہاں 14 اگست 1863 میں ان کی وفات ہوئی اور وہیں ویسٹمنسٹر ایبی میں آسودہ خاک ہوئے ۔
شاندار بخاری
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔