تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری
آٹھویں قسط میں کیمبل پور سے ملحق دیہات سے آنیوالوں کو ذکر کرتے ہوئے ، لکھا تھا کہ” دیہات سے آنیوالوں نے اس شہر کی اسٹیج پہ سجنے والے زندگی کےہر ڈرامے میں فعال کردار ادا کئے ” ، علم و ادب ، مذھب ، سماج سیوا ، ثقافت اور سیاست ، غرضیکہ کوئی شعبہ ایسا نہیں ، جس میں ان کا عمل دخل نہ رہا ہو ۔اتفاق سے ان دنوں ، میں اپنے شہر کیمبل پور میں موجود ہوں اور آج جب ایک صاحب سے ملنے ، چھوئی روڈ پہ واقع ان کے آفس گیا تو ، قدم رک سے گئے ، 1970 کا زمانہ ، پیپلز پارٹی کا ابتدائی دور اور ماضی کے کچھ واقعات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے ۔ جی ہاں ، میں اس وقت پیپلز پارٹی ضلع کیمبل پور کا ہیڈ آفس سیکریٹری تھا ، سید عاشق کلیم مرحوم ، پارٹی کے صدر اور الیکشن کی تیاریاں عروج پر تھیں لیکن زمینداروں اور جاگیرداروں کے اس ضلع میں ، بھٹو مرحوم کے نعرہء سوشلزم کو لیکر ، کوئی امیدوار سامنے آنے کی جرآت نہیں کرپارھا تھا اور کرتا بھی کیسے ، تحریک پاکستان کے راہنماء سردار شوکت حیات خان جیسی نامور سیاسی شخصیات میدان میں موجود تھیں ۔ ویسے بھی کیمبل پور روائیتی طور پر مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے ۔ شمس آباد کے ملک صاحبان ، واہ اور فتح جنگ کی کھٹڑ برادری ، پنڈی گھیب کے نوابزادگان ، گھیبے ، راجپوت ، تلہ گنگ جو اس وقت کیمبل پور کی تحصیل تھی ، وھاں کے ٹمن اور ملک صاحبان، کھنڈہ سے ملک اللہ یار خان اور چھچھ سے تاج خانزادہ وغیرہ ، اتنے طاقتور اور بااثر لوگ تھے کہ جن کا سامنا کرنے کے لئے پیپلزپارٹی ، اپنی بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود ، مناسب امیدوار تلاش کرتی پھررہی تھی ۔ اس پس منظر میں مرحوم عاشق کلیم نے ، اس فقیر کو شہر کی صوبائی نشست کے لئے مناسب امیدوار تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی ۔ چونکہ ہماری رہائیش شروع سے محلہ امین آباد میں تھی لھذا ہر روز صبح و شام بجلی گھر روڈ سے گیدڑ موڑ اور پھر جی بلاک میں واقع پارٹی کے آفس جانا ہوتا تھا ۔ ایک دن جب میں چھوئی روڈ پہ ملک شیراحمدخان صاحب کے ٹال کے پاس پہنچا تو ایک سفید رنگ کی اوپل کار کے پاس کھڑے ایک خوبصورت جوان نے مجھے روک کر دعاء سلام کے بعد ، پارٹی کے بارے میں بات چیت شروع کردی ۔ میں ان صاحب کو نام اور شکل سے جانتا تھا لیکن کبھی علیک سلیک نہیں ہوئی تھی ۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد ، میں آفس چل دیا اور خیال تک نہ آیا کہ یہ صاحب آگے چل کر ہمارے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہونگے ۔دوسرے روز پھر وہیں پہ ملاقات ، قصہ مختصر ملاقاتوں کی ایک سیریل شروع ہوگئی اور باالآخر ایک دن انہوں نے اپنے دل کی بات کہ دی کہ اگر پیپلزپارٹی مجھے ٹکٹ دے تو میں مسلم لیگ چھوڑ کر پی پی میں شامل ہوجاونگا ۔ اندھا کیا مانگے ، دو آنکھیں ، پارٹی نے مجھے پہلے ہی یہ ہدف دے رکھا تھا کہ صوبائی کے لئے کوئی مناسب امیدوار تلاش کروں ۔ آفس پہنچ کر ضلعی صدر مرحوم عاشق کلیم کو خوشخبری دی کہ امیدوار مل گیا ۔ کہا کون ؟ عرض کیا ابھی نام نہیں بتاونگا ، نواحی گاوں کی ملک ( اعوان ) برادری کا نوجوان ، درمیانے درجے کا زمیندار ، پیشے کے لحاظ سے ٹھیکیدار ، ایک عدد کار کا مالک اور مبلغ پچاس ھزار روپے نقد الیکشن مہم پہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہے ۔ یاد رہے 1970 میں پچاس ھزار روپے ایک خطیر رقم تھی ۔ بات ہورہی تھی دیہات سے آنیوالوں اور شھر کے سیاسی اسٹیج پہ ان کے کردار کی ، اب دیکھئے کس طرح ایک نیا کردار جلوہ گر ہوتا ہے ۔ ۔
( جاری ہے )
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست
اٹک ای میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔