تحریر:سیدزادہ سخاوت بخاری
نواحی دیھات اور آبادیوں کے ذکر کے بغیر ، پرانے کیمبل پور کی تاریخ ، ادھوری ، لولی ، لنگڑی ، پھیکی اور بے رنگ ہوگی ۔ اس شھر کی اسٹیج پہ سجنے والے ، زندگی کے ہر ڈرامے میں ، ان دیہات کے لوگوں نے اہم کردار ادا کئے ۔ پرانا اور ابتدائی شھر تو ایک ماسٹر پلان کے تحت وجود میں آیا لیکن دائیں بائیں کے محلے اور نئی آبادیاں خود رو پودوں کی طرح ، ایسا منظر پیش کرتی تھیں ، جسطرح کسی کسان نے ، ” چھٹا ” مارکر گندم بوئی ہو ، دو گھر یہاں تو چار وھاں ، بیچ میں خالی میدان ، پگڈنڈیاں ، کچےراستے اور گزرگاھیں ۔ اس دلکش اور خوبصورت پس منظر میں ، سویرا ہوتے ہی ،سورج دیوتا کی اولین اور ننھی منی کرنوں کے جلو میں ، مذکورہ دیہات سے لوگوں کے قافلے کیمبل پور میں داخل ہوتے۔ اکثریت پیدل چل کر آتی ، تاہم کچھ لوگ تانگوں ، بیل گاڑیوں ، سائیکل اور جانوروں پہ سوار ہوکر ، شھری زندگی کے اس میلے کا حصہ بنتے ۔دیہات سے آنے والوں میں طلباء و طالبات ، معلمین و معلمات سرکاری و نجی ملازم ، تاجر ، وکیل ، ھنرمند ، مزدور اور کورٹ کچہری میں مقدمات کی پیروی کرنے والوں سے لیکر سائیں ، ملنگ اور فقیر تک شامل ہوتے ۔ جن دیہات میں چاھی زمینں تھیں وہاں کے لوگ تازہ سبزیاں اور دیسی پھل ، کالا چٹا کے دامن میں بسنے والے ، جلانے کی لکڑی ، پہاڑ میں سے جمع کیا ہوا ، جانوروں کا سوکھا گوبر ، دیسی مرغیاں اور انڈے ، بھیڑ بکریوں کا دودھ ، دیسی بکرے ، موسم گرما کی سوغاتیں ، گنگیر ، میٹھے خربوزے اور دیگر اشیاء خورد نوش لاکر فروخت کرتے اور واپسی پر آٹا ، چاول ، مرچ مصالحے ، کپڑا ، جوتے وغیرہ ، حسب ضرورت خرید کر لیجاتے ۔ ذرائع ابلاغ نہ ہونے کے برابر تھے ، ریڈیو کم کم ، ٹیلیوژن ندارد ، ٹیلیفون کی لینڈ لائن شھر کی حد تک اور وہ بھی روساء کے پاس ، موبائل فون اور سوشل میڈیا ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے لھذا خبریں ، سینہ بہ سینہ گشت کرتی تھیں ، باھر سے آنے والے افراد اور قافلوں کو روک کر پوچھا جاتا تھا ، کہاں سے آئے ہو ، فلاں گاوں سے ، اچھا ، کرم دین بیمار تھا ، اس کا کیا حال ہے ، جی ، اب بہتر ہے ، فلاں پیر صاحب سے دم کروایا، اب روبصحت ہے ۔ فلاں شخص شھر نہیں آرھا ، خیریت تو ہے ، جی اس کا بھائی فوج سے چھٹی آیا ہوا ہے ، اس کی شادی میں لگے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح دیہات سے آنے والے یہ افراد ، شھر سے نئی معلومات اور سنی سنائی خبریں ساتھ لے جاتے تھے ۔ جسطرح آج ، ٹیلیوژن پہ ٹاک شوز ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ پیدل چلنے والے ، راستے بھر مختلف موضوعات پہ بحث کرتے اور حصول معلومات کے ساتھ ساتھ سفر بھی بہ آسانی طے ہوجاتا۔ اطراف کی آبادیوں سے مالکان اور خان خوانین ، عام جنتا کے برعکس ، گھوڑوں پہ سوار ہوکر ، شھر تشریف لاتے ، صحتمند جسم ، سفید شلوار قمیص ، سفید شملے دار پگڑی ، پاوں میں قیمتی کھیڑی ، پوری شان و شوکت سے نمودار ہوتے ، راہ چلتوں سے سلام دعاء کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ۔ منزل پہ پہنچ کر گھوڑا سائے میں باندھ دیا , کام نمٹایا اور خان صاحب کی سواری واپس چل دی . موٹر کار خال خال نظر آتی تھی ، روساء نے اپنے استعمال کے لئے ذاتی تانگے رکھے ہوئے تھے جنھیں بوقت ضرورت جوت کر استعمال میں لایا جاتا تھا ۔ مثلا ، ہماری آبادی میں ایک تحصیلدار صاحب تھے ، سردار سلطان محمود خان بسمل مرحوم ، انہوں نے اپنے بچوں کے اسکول آنے جانے کے لئے ، ایک خوبصورت گھوڑی تانگہ رکھا ہوا تھا ۔ ہر صبح ان کا کوچوان انہیں لیکر جاتا اور چھٹی کے بعد واپس لاتا ۔
بات دیہات کی ہورہی تھی تو عرض ہے ، ایندھن کے حوالے سے ، وہ لکڑی اور کوئلے کے استعمال کا ذمانہ تھا ، مٹی کے تیل کا چولھا عام نہیں تھا ، گیس ابھی دریافت کے ابتدائی دور میں تھی لھذا کالا چٹا پہاڑ کی لکڑی کیمبل پور کے ایندھن کی ضروریات پوری کرتی تھی ۔ پہاڑ کے قریب آبادیوں کے لوگ جنگل سے لکڑی کاٹ کر شھر لاتے اور اس طرح شھروالوں کے چولہے جلتے ۔
(جاری ہے )
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست
اٹک ای میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔