تحریر:
سیدزادہ سخاوت بخاری
ہم بجلی گھر روڈ پر کھڑے ایک تعلیمی ادارے کی بات کررہے تھے ، جہاں اب غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں ۔ قصور کس کا ، مفاد پرست ، چور ، ڈاکو اور لٹیرے ، ہر سوسائیٹی میں ہوتے ہیں لیکن ، نیکی کی قوتوں کو متحرک رھنا چاھئے تاکہ معاشرہ ترقی کرتا رہے ۔
آئیے آگے بڑھتے ہیں ، بجلی گھر موڑ سے گیدڑ چوک تک بیچ کی جگہ خالی تھی ، جو ملک شیراحمد خان کے خاندان کی ملکیت ہے ، بعد میں انہوں نے یہاں ایک تجارتی یارڈ قائم کیا جہاں اب بھی سیمنٹ سریا اور دیگر عمارتی سامان کا کاروبار ہوتا ہے ۔
گیدڑ موڑ یا چوک : ( وجہ تسمیہ )
یہ ، وہ جگہ ہے جہاں آکر حمام روڈ / برق روڈ ، چھوئی روڈ سے بغل گیر ہوتا ہے ، کارنر پر اسد سویٹ ہاوس ہے ۔ یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں چین کے شہنشاہ چنچی نے ٹریفک پولیس کی مدد سے قبضہ جما رکھا ہے ۔
ہمارے دور میں یہ ایک کھلا علاقہ تھا ۔ جہاں اب سروالہ کی طرف منہ کرکے چنچی کھڑے ملتے ہیں ، یہاں تقسیم سے پہلے کی چند دکانیں ، ان کے عقب میں چھوٹے چھوٹے کوارٹر اور پیچھے ایک آٹا چکی موجود تھی ، اس کے بعد کھلا میدان ۔ اسی طرح شرق میں گندے نالے تک کھلا میدان تھا ۔ گندہ نالہ سول بازار کے اختتام اور ستار چوک ( شیرانوالہ) کے عین وسط میں آتا ہے ۔ اب اسے ڈھانپ دیا گیا ہے ، شروع میں یہ معلق نالہ تھا اور مولے والی گلی اس سے منسلک نہ تھی ۔
اس سے پہلے کہ گورا قبرستان تک پہنچ جائیں ، آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ گیدڑ موڑ کو یہ عوامی نام کیسے عطاء ہوا ۔
جہاں اس وقت اسد سویٹ ہاوس ہے ، اسی عمارت میں ، جو قدرے اس سے بڑی تھی ، ہمارے گوانڈی میاں چاچا نے ، چائے کی دکان بنائی ، ان کے بڑے بیٹے کا نام فاروق تھا لیکن گھر والے بچپن سے اسے پیار سے گیدڑ کہ کر پکارتے تھے ۔ بڑا ملنسار اور ھنس مکھ انسان تھا ، اسی کی عرفیت نے اس ریستوران کو گیدڑ ہوٹل کا نام دیا اور ایک لمبے عرصے تک ہوٹل کی موجودگی سے یہ نام عوامی شہرت اختیار کرگیا ۔ جب ہوٹل ختم ہوگیا تو گیدڑ ہوٹل سے گیدڑ موڑ کہا جانے لگا ۔ ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ ” کیا یہ درست ہے کہ پرانے زمانے میں گیدڑ یہاں تک آجاتے تھے ، اس لئے اسے گیدڑ موڑ کہتے ہیں ، تو اسے یہی بتایا کہ یہ بات درست نہیں بلکہ فاروق عرف گدڑا لالہ کی وجہ سے ،اسے یہ نام نصیب ہوا ۔
چونکہ وہ زمانہ تانگے اور بیل گاڑی کا تھا ، لھذا جسطرح آج یہاں چنچی اور سوزوکی نظر آتے ہیں ، اسی طرح گیدڑ ہوٹل کے سامنے اور اطراف بیل گاڑیاں اور تانگے پارک ہوتے تھے ۔ ایک تو یہ سروالے کی پرانا اڈہ تھا ، دوسرا گیدڑ ہوٹل کی چائے بہت لذیذ اور تھکن دور کرنے والی مشہور تھی ۔ بعض ماہرین چائے کی رائے تھی کہ گدڑ لالہ کے والد میاں چاچا چائے کو افیون کے ڈوڈے یا پوست کا تڑکا لگاتے ہیں ۔ بہرحال اس زمانے میں یہ ایک معروف اور عوامی چائے خانہ اور اڈہ تھا لیکن چند تانگے اور کچھ بیل گاڑیاں ، کوئی رش اور اژدھام نہیں کیونکہ موٹر سائیکل ، سوزوکی اور چنچی نام کی کوئی آفت موجود نہ تھی ۔
اب آگےچلتے ہیں ، جہاں سول بازار آکر چھوئی روڈ سے ملتا ہے ، اس کے سامنے مشرق کی طرف میدان اور مغرب کی طرف گندے نالے کے ساتھ پرانی اور نئی لیکن بے ترتیب آبادی موجود تھی ۔ یہ آبادی سڑک کے ساتھ ساتھ گورا قبرستان تک پھیلی ہوئی تھی ۔ گورا قبرستان کے عقب میں جنوب مغرب کی سمت کربلا محلہ جو دراصل کامل پور سیداں کی توسیع یا ایکسٹینشن ہے ، یہاں پرانے گھر موجود تھے لیکن قبرستان سے آگے فتح جنگ روڈ پر ، تا ڈھوک فتح ، سڑک کی دونوں اطراف ، کوئی آبادی نہ تھی ۔ ڈھوک فتح بھی فتح جنگ روڈ سے شروع ہوکر ، صرف ایک دو گلیوں کی شکل میں جانب غرب ، پنڈ غلام خان کی سمت رواں تھی ۔ اس سے آگے دریائے ہرو تک مکمل ویرانہ تھا ۔
کامل پور سیداں
یہ گاوں قدیمی ہے اور شھر کے آباد ہونے سے بہت پہلے ، موجود تھا ۔ اس کا حدود اربعہ بڑا آسان ہے ، گورا قبرستان چوک سے ناز سینما ، وھاں سے نادرا آفس ، نیچے آجائیں امام بارگاہ کے آگے سے گزر کر فتح جنگ روڈ اور گورا قبرستان ۔ یہ تھا پرانا کامل پور سیداں ۔ جانب غرب ، کوچہ پریم نگر اسی کی توسیع اور نئی آبادی ہے ۔ یہاں کھیت ہوا کرتے تھے اور گندم بوئی جاتی تھی ۔ کامل پور سیداں کا ذکر ہورہا ہے تو عرض کرتا چلوں کہ یہ چھوٹا سا گاوں ، کینٹ ایریا میں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ صفائی کا نمونہ رھا ۔ اس کی تنگ مگر صاف ستھری گلیوں میں روشنی کے لئے پرانی طرز کے چراغدان ( Lamp Posts)نصب تھے ۔ یہاں شھر کی قدیمی امام بارگاہ واقع ہے ۔
جاری ہے …….
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست
اٹک ویب میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔