تحریر: سیدزادہ سخاوت بخاری
ذکر ہورہا تھا تولہ رام بلڈنگ کا ، جو اس شھر کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ جب بھی کیمبل پور جاتا ہوں ، آتے جاتے ، فن تعمیر کا یہ شاھکار مجھے ، ماضی کے جھروکوں میں لے جاتا ہے ، کیسا نقشہ نویس تھا ، کون تھے معمار ، کسے داد دوں ، تولہ رام کو ، آرکیٹیکٹ کو یا جس نے تیسی کرنڈی چلائی ، کہاں گئے یہ لوگ ، سنا تو یہ ہے کہ ہم علوم و فنون میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں لیکن اب ایسے شاھکار کیوں تخلیق نہیں ہوتے ، یہی سوچیں مجھے تاریخ کے وسیع و عریض میدانوں میں لے جاتی ہے ، وادئ بابل و نینواء کی سیر کو نکل جاتا ہوں ، جہاں تہذیب و تمدن نے جنم لیا ، منارہ بابل کی تعمیر ہوئی ، کہ جس پر بیٹھ کر بابلی لوگ ستاروں کا حساب کتاب کیا کرتے تھے ، یہ قصہ حضرت مسیح کی آمد سے بہت پہلے کا ہے، جب بابل شھر میں معلق باغات اگائے گئے ، چاہ بابل جس میں دو فرشتے ھاروت و ماروت آج بھی زنجیروں میں بندھے الٹے لٹکے ہوئے ہیں ، موجود ہے ، لیکن اس کے معمار نظر نہیں آتے ۔قارئین سوچ رہے ہونگے کہ شاہ جی آپ ہمیں کیمبل پور کی سیر کرانے نکلے تھے ، یہ بابل اور نینوا ، منارہ بابل اور ھاروت و ماروت کہاں سے آگئے ، ھاں بھئی صحیح کہ رہے ہیں آپ ، لیکن ، تاریخ کو ساتھ لیکر چلنا بھی ضروری ہے ۔
اھل بابل نے تہذیب و تمدن کو جنم دیا ، فن تحریر اور علم نجوم کے موجد بھی یہی بابلی ہیں لیکن پھر کیا ہوا ، آج وہی عراق لخت لخت ہے ، نااھل حکمرانوں نے قوم کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا ، جہاں منارہ بابل اور معلق باغات کے معمار پیدا ہوئے ، آج وھاں خودکش بمبار اور داعش کے پالتو درندے ، اپنے آباء کی لکھی ہوئی تاریخ کو اپنے ھاتھوں مٹانے میں مصروف ہیں ۔ یہی کام ہم نے کیمبل پور کے ساتھ کیا ، چھوٹا سا ، پرامن اور صاف ستھرا شھر ، افغان مہاجرین اور دیگر گھس بیٹھیوں کے در آنے سے ، غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے ، شھر کا دلکش آرکیٹیکچر بے ھنگم تعمیرات نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ، اب بالکونیاں ہیں نہ جھروکے ، ڈیوڑیاں ہیں نہ چوبارے ، عمرانی حسن و خوبصورتی کی تباہی تو ایک طرف ، موٹر سائیکل ، سوزوکی ، ٹریکٹر ٹرالی ، پتھارے اور چنچی کی یلغار کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ٹڈی دل نے ھرے بھرے کھیتوں پہ حملہ کردیا ہو ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ہم یا کوئی اور ؟ یہ کام بلدیہ اور بلدیاتی نمائندوں کا تھا کہ شھر کے تاریخی حسن کو برقرار رکھتے ۔ نئی تعمیر ہونیوالی عمارات کے لئے کوئی کوڈ آف آرکیٹیکٹ ہوتا ، پرانی تاریخی عمارتوں کو محفوظ کیا جاتا ، شھر کے بنیادی ماسٹر پلان کو سامنے رکھ کر تعمیرات کی اجازت دی جاتی لیکن نہائت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سب کے سب ڈنگ ٹپاو تھے ، اپنے عھدے اور سیٹ سے تو پیار تھا ، شھر کو لاوارث چھوڑ دیا ۔ باھر سے آنیوالے خودکش بمباروں نے کچھ مقامی مفاد پرستوں کے ساتھ مل کر میرے کیمبل پور کا حلیہ بگاڑ دیا ۔ معاف کیجئے فرط جذبات میں کہاں سے کہاں نکل گیا ، آئیے آپ کو کیمبل پور کی پرانی آبادی کی سیر کراوں ۔ یہ تو پہلے بیان کرچکا ہوں کہ پرانا شھر پلیڈر لائن سے شروع ہوکر چھوئی روڈ پہ ختم ہوجاتا تھا ۔ مغرب کی طرف عیدگاہ محلہ ہے ، اسے ایک زمانے میں گڑیالہ محلہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ موضع گڑیالہ کے خوانین یہاں آباد تھے ۔ یہ آبادی بھی تقسیم سے پہلے کی ہے ۔ ماڑی موڑ کے سامنے سے لیکر پرانے قبرستان تک چند پرانے گھر طولا پھیلے ہوئے تھے ۔ اس کے عقب میں جانب ریلوے اسٹیشن کوئی آبادی نہ تھی بلکہ سفید ریت کا ایک چھوٹا سا صحراء تھا۔ ادھر آجائیں ، چھوئی روڈ کے ساتھ موجودہ کرسچین کالونی سے لیکر سڑک کے ساتھ ساتھ محلہ عید گاہ تک ، بیچ کا یہ علاقہ زرعی فارمز پہ مشتمل تھا جسے ہم اپنی زبان میں ” کھوہ ” کہتے ہیں ۔ کرسچین کالونی سے متصل پہلوان افضل خان مالک ناز ہوٹل کا کھوہ تھا ، اس سے آگے ملک امین اسلم آف شمس آباد کا کنواں اور تین اور کھوہ تھے ، جہاں سبزیاں اور دیگر اجناس اگائی جاتی تھیں ۔ اس طرح سے آخر میں محلہ عیدگاہ ایک الگ تھلگ آبادی تھی ، جہاں عیدگاہ اور ڈنگر ھسپتال انگریزوں نے تعمیر کرائے ۔ آخر میں بلدیہ کیمبل پور کی طرف سے انگریز دور میں منظور کیا گیا ، پہلا قبرستان ، جو ریلوے لائن پہ جاکر ختم ہوجاتا ہے ۔ ریلوے لائن کی پرلی طرف والا قبرستان بہت بعد میں قائم ہوا۔ شھر کا مشرقی حصہ یعنی محلہ مہر پورہ ، یہ آبادی بھی پرانی ہے ، ریلوے کی حدود کے ساتھ ساتھ ، کامرہ روڈ سے شروع ہوکر جانب مغرب ایک قطار کی شکل میں موجود تھی ۔اس سے آگے صرف زراعت فارم تھا جو آج بھی موجود ہے ، یہ شھر کی آخری آبادی تھی اس کے بعد کھیت کھلیان اور اجاڑ بیابان ۔کامرہ روڈ کے مغرب میں ریلوے لائین کے بعد بلدیہ کی محصول چونگی تھی جہاں باھر سے آنے والے مال اسباب اور سامان تجارت پہ محصول یا ٹیکس وصول کیا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ دوچار پرانے گھر تھے ، اس سے آگے اور پیچھے زرعی زمینیں ، جہاں گندم اور چنے کی فصلیں کاشت ہوتی تھیں ۔ سول ھسپتال ایوب خان کے دور میں تعمیر ہوئی اور شھر کے لوگ حکومت کو کوسنے دیتے تھے کہ کہاں جنگل میں شھر سے دور ھسپتال بنادی ۔کون جائیگا اتنے دور دواء لینے۔
(جاری ہے )
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔