تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری
پہلی قسط میں بات ریستورانوں تک پہنچی تھی جنھیں ہم پاکستان میں ھوٹل کہتے ہیں ۔جب ہم نے ہوش سنبھالا تو پاکستان کو بنے ابھی سات آٹھ برس ہوئے تھے ، ھندو آبادی کےکیمبل پور سے ھجرت کرجانے کے بعد ، ھندوستان سے ھجرت کرکے آنیوالے اردو اور پنجابی بولنے والے ہمارے بھائی بہن ، خاندان اور کنبے ، ھندو متروکہ املاک میں جلوہ گر تھے ۔ پرانے شھر کے اکثر بلاک ان ہی کے حصے میں آئے ۔ مقامی قبیلوں اور مہاجرین پہ مشتمل کیمبل پور ، آبادی کے تنوع میں قوس قزح کے رنگ لئے ہوئے تھا ۔ کیمبل پوری شلوار قمیص کے ساتھ ساتھ دکنی اسٹائل کے کھلے پونچے والے اور چوڑی دار پائجاموں میں ملبوس مرد و خواتین ، شھر کے حسن میں اضافے کا سبب بنے ۔ نسوار اور چلم (دیسی حقہ ) تو پہلے سے موجود تھے ، پان کے اضافے نے شھر کے گالوں میں سرخی بھردی ۔ فوارہ چوک میں جہاں اب اسٹینڈرڈ بیکری ہے ، یہاں کبھی چاچا الف دین کی دکان ، کلکتہ بوٹ ھاوس ، ہوا کرتا تھا ، جس کے باہر کونے میں کالو پان والے کی کھوکھا نماء دکان تھی ۔ شام ہوتے ہی صاحبان ذوق وھاں پان کھانے پہنچ جاتے تھے۔ ہمارے دوست اور معروف صحافی مرحوم اکبر یوسف زئی ، جو پان کے رسیاء تھے ، اگر کہیں نہ ملیں تو کالو پان والے کے پاس کھڑے مل جاتے تھے ۔ بازاروں کا حال کچھ اسطرح تھا کہ کمیٹی چوک سے فوارہ چوک اور پھر نیچے ناز ہوٹل کی طرف مڑ جائیں تو موجودہ ملا کنڈ کباب ھاوس تک ، بس یہی بازار تھا ۔ چوک فوارہ سے اوپر پلیڈر لائین کی سمت اور مغرب کی طرف چند دکانیں تھیں ۔ جامع مسجد کے پچھواڑے سے لیکر سیدھا آئیں تو گیدڑ موڑ تک اکا دکا چھوٹی موٹی دکان نظر آتی تھی ۔ بلال میڈیکل اسٹور سے ذرا اوپر، غالبا تقسیم ھند سے پہلے کا ایک حمام تھا اور اسی حمام کی نسبت سے اسے حمام روڈ پکارا جانے لگا ۔ اب شاید سرکاری طور پر اسے برق روڈ کہا جاتا ہے اور ایک مصروف بازار کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ جس جگہ بلال میڈیکل اسٹور ہے ، یہ کسی ھندو کی وسیع و عریض حویلی تھی اور بازار کی طرف دیوار میں سنگ مرمر کے ٹکڑے پہ مالک مکان کا نام ھندی میں کندہ نظر آتا تھا ۔ ھندوں کے چلے جانے کے بعد یہاں خواتین کے لئے دستکاری اسکول قائم ہوا جو ماضی قریب تک موجود رھا ۔ شھر میں چونکہ ھندوں کی اکثریت آباد تھی لھذا کئی ایک مندر بھی تعمیر کئے گئے ، جو تقسیم کے بعد اسکولوں اور مساجد میں تبدیل کردئے گئے ۔ مثال کے طور پر صرافہ بازار سے مغرب کو صدیقی روڈ پر ، جو ڈاک خانہ ہے ، یہ ھندوں کی دھرم شالہ تھی ، سول بازار میں شھر کی معروف جامع مسجد حنفیہ بھی ایک مندر کی عمارت میں قائم ہے ۔ مجھے اسے اس کے اصلی روپ میں دیکھنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ صحن تھا اور دو کمرے ، ایک کمرے میں وہ چبوترا قائم تھا کہ جس پر مورتیاں سجائی جاتی ہونگی ۔ اس سے قبل شھر میں ایک ہی جامع مسجد تھی ، مسلمانان ھند کے ورود کے بعد ، ان ہی کی کوششوں سے اس مندر کو حنفیہ مسجد میں تبدیل کیا گیا ۔ اتفاق کی بات ہے کہ جامع مسجد شروع سے دیوبندی مکتب فکر کے پاس تھی لھذا بریلوی خیال کے لوگوں نے جامع حنفیہ قائم کی اور وہاں کے پہلے خطیب کے طور پر ، استادی المکرم مرحوم قاضی زاھد الحسینی کے بڑے بھائی مرحوم قاضی انوارالحق کو مقرر کیا گیا ۔ ۔ آپ زندگی کے آخری ایام تک یہاں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ۔ مرحوم اپنے بھائی کے برعکس بریلوی مکتب فکر کے بے پایاں عالم اور خطیب تھے ۔ حسن اتفاق سے جہاں اس مسجد کے بانی ھندوستان سے ھجرت کرکے آئے تھے وہیں ان کو ایک ایسا عالم مل گیا ، جس نے ساری عمر ریاست جوناگڑھ میں قاضی اور خطیب بن کر گزاری ۔ تعلق علاقہ چھچھ کے گاوں شمس آباد سے تھا مگر ھندوستان میں اتنا لمباعرصہ گزارا کہ زبان ، لباس اور چال ڈھال سب یوپی اور بہار کے رنگ میں ڈھل گیا ۔ وہی چوڑی دار پاجامہ ، ھلکے سلیٹی رنگ کی شیروانی ، سر پہ قراقل اور پاوں میں کولہا پوری نرم و گداز کھسہ ۔آگے چل کر علماء و مشائخ کے باب میں ان کا مزید ذکر ہوگا ۔ اس کے علاوہ سول بازار ہی میں مولے والی گلی میں ایک مندر تھا جہاں بعد میں پرائمری اسکول قائم ہوا اور اسے مندر والا اسکول کہا جاتا تھا ۔ ایک اور مندر اے بلاک میں تھا جہاں اب غالبا لڑکیوں کا اسکول ہے ۔ کچہری بازار میں باٹا کی دکان کے سامنے ایک گلی اوپر جاتی ہے ، آگے جائیں تو بہت بڑا چوک ہے ، اس کے دائیں ھاتھ پہ کونے والی عمارت دھرم شالہ تھی ۔ ان سب عمارتوں کو ہم نے ان کی اصلی ھندوانہ مذھبی شکلوں میں دیکھا ۔کیمبل پور کی اکثر عمارات ھندوں کی تعمیر کردہ تھیں جن سے ان کا ذوق تعمیر جھلکتا تھا ، بغیر پلستر کے اینٹوں سے بنے گھر ، چوبارے ، ڈیوڑیاں ، اینٹوں ہی سے بنے نقش و نگار ، جھروکے ، کوکے دار دروازے اور کھڑکیاں ، روشن دان ، دروازوں کے اوپر چراغ دان اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر گھر کی سیڑھی ، سلیٹی رنگ کے بڑے بڑے پتھر تراش کر بنائی جاتی تھی ۔ یوں تو شھر کی ہر عمارت فن تعمیر کا شاھکار تھی لیکن صرافہ بازار سے نیچے کی طرف جائیں تو معروف تولہ رام بلڈنگ ، جس کے سرخ رنگ کے برآمدے اور نقش و نگار آج بھی دعوت نظارہ دیتے نظر آتے ہیں ۔ میں تقریبا نصف صدی سے بیرون ملک آباد ہوں اور کئی ممالک گھوم چکا ہوں ، ایسا ذوق تعمیر بہت کم نظر آیا ۔ گزشتہ برس کوہ قاف کے دیس گیا تو وہاں کی قدیم عمارات میں ، اپنے شھر کی شبیہ نظر آئی ، اسقدر اپنائیت تھی کہ تین ماہ تک کوہ قاف کی گلیوں میں گھوم کر ان کے آرکیٹیکچر سے محظوظ ہوتا رہا ۔
(جاری ہے )
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔