کیمبل پور سے اٹک تک -1

تحریر:

سیدزادہ سخاوت بخاری

سنہ 1857 کی جنگ آزادی کے وقت سر کولن کیمپبل ( Sir Colin Campbell) برطانوی افواج کے سربراہ تھے ، ان ہی کی سوچ اور منصوبے کے مطابق ، ھندوستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے یعنی موجودہ خیبر پختونخواہ سے اٹھنے والی شورشوں اور اس علاقے میں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے ، تاریخی مقام اٹک اور دریائے اٹک ( سندھ) سے کچھ فاصلے پر ایک فوجی چھاونی قائم کی گئی ، جسے آج ہم آرٹلری سینٹر اور اس کی ملحقات کے نام سے جانتے ہیں ۔ چونکہ اس علاقے میں یہ ایک اہم آبادی تھی لھذا لینڈ مارک (ؒLand Mark)یا شناخت کی حیثیت اختیار کرگئی اور ہمارے بچپن تک ، ہم سے پہلی نسل کے افراد ( بزرگ ) کیمبل پور کو فقط ” چھاونی ” یا چھونڑیں کے نام سے پکارتے تھے ۔

یہ بات یاد رکھیں کہ چھاونی بہت پہلے قائم ہوئی اور پھر 1908 کے لگ بھگ جانب مغرب ، ایک شھر کی بنیاد رکھی گئی ، جسے برطانوی فوجی کمانڈر سر کولن کیمبل کے نام کی مناسبت سے کیمبل پور کا نام دیا گیا ۔

اس شھر کے نقشہ نویس Architect کا علم نہیں ، لیکن ، میں اسے داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ جیومیٹری کی مدد سے سیدھی اور کشادہ گلیاں ، چھوٹے چھوٹے وارڈز ( محلے)، ہروارڈ کے بیچوں بیچ ایک کشادہ چوک اور اس کے عین وسط میں پانی کا کنواں ، یہی چوک اس زمانے میں مختلف سماجی تقریبات کے لئے استعمال ہوتے تھے ۔

سیدزادہ سخاوت بخاری
سیّدزادہ سخاوت بخاری – سرپرست اعلی، اٹک ویب میگزین

1970 میں ، بحیثیت طالب علم سال چہارم ، گورنمنٹ کالج کیمبل پور ، میرا ایک مضمون ، کالج کے مجلہ ” مشعل ” میں چھپا ، جس کا عنوان تھا ” کیمبل پور کا جغرافیہ ” ، یہ عنوان میں نے ، استاد محترم پروفیسر محمد انور جلال صاحب کی مشاورت سے ، پطرس بخاری کے مضمون

” لاھور کا جغرافیہ ” سے متاثر ہوکر منتخب کیا۔ چونکہ کیمبل پور اس وقت تک اپنی اصلی عمرانی حالت میں موجود تھا لھذا شھر اور گردونواع کی حقیقی تصویر میرے اس مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

شھر کی گلیوں کو اس وقت کے معروف خشت ساز ، جوالا رام سنگھ، آف جسیاں ، کے بھٹے کی اینٹوں سے پختہ کیا گیا ۔ میں نے اپنے مضمون میں طنزا لکھا تھا کہ بلدیہ والے ، گلیوں کی مرمت کے نام پہ اینٹوں کی کروٹ بدل دیتے ہیں یعنی جب اینٹ گھس جاتی ہے تو سال دو سال بعد اسی کو الٹ کر لگادیتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا بچپن ، ٹانگہ ، ریڑھہ ، اونٹ گاڑی ، بیل گاڑی اور سائیکل کا زمانہ تھا ، موٹر کار اور موٹر سائیکل خال خال نظر آتی تھی ، ٹریکٹر ٹرالی ، سوذوکی ، ویگن اور چنچی کا جنم نہیں ہوا تھا پھر بھی ، شھر کا نقشہ بنانے والوں نے حادثات کی روک تھام کے لئے ، گلیوں کو یکطرفہ ٹریفک کے لئے ڈیزائن کیا ، ہر گلی کی ایک سمت پہ قریبی پہاڑیوں سے پتھر تراش کر چھوٹے چھوٹے ستونوں کی شکل میں گاڑ دئے گئے تاکہ پیدل افراد تو گزر سکیں لیکن کسی سواری کا گزر نہ ہوسکے ۔

پلیڈر لائن سے شروع ہونے والا شھر چھوئی روڈ پہ ختم ہوجاتا تھا ۔ چھوٹا سا شھر ، کم کم آبادی ، صاف ستھرا اور پرامن ماحول ، شروع سے آخر تک ایک ہی بازار جسے انگریز سول بازار کا نام دے گئے تھے ، سر شام بند ہوجاتا تھا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ایک ایک ھائی اسکول ، ایک گورنمنٹ کالج جہاں ہمارے دور تک مخلوط تعلیم تھی ۔ چند پرائمری اسکول اور جہاں اب لڑکیوں کا کالج ہے کامل پور سیداں کے پاس ، یہ شھر کا پہلا سرکاری ھسپتال تھا ۔ موجودہ ڈسٹرکٹ ھیڈ کوارٹرز ھسپتال ہمارے بچپن میں تعمیر ہوا ۔

کھیلوں کے لئے ایک وسیع میدان ” کرشنا گراونڈ ” کے نام سے موجود تھا ، جسے اب لالہ زار یا کسی اور نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ ھائی اسکول ( موجودہ پائیلٹ ) ، گورنمنٹ کالج کا گراونڈ اور ایک قیدی گراونڈ تھا جہاں آجکل لاری اڈے کے قریب جوڈیشیل کمپلیکس اور ٹیلیفون ایکسچینج ہے ۔ سیرو تفریح کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پہ کمپنی باغ تھا ( موجودہ جناح پارک ) متصل ڈپٹی کمشنر ھاوس ۔

چھوئی روڈ کے جنوب میں شھر کا پہلا بجلی گھر تعمیر کیا گیا ، ہم نے ہوش سنبھالی تو یہ ادارہ سردار ممتاذ علی خان کی ملکیت میں تھا ، پرانے شھر کے علاوہ بجلی کی ترسیل کہیں نہ تھی لھذا ہم امین آباد اور ملحقہ آبادیوں کے مکینوں کا لڑکپن لالٹین کی روشنی میں پروان چڑھا ۔ میرا ایک ہم جماعت

محمد زمان قریشی سکنہ گل آباد حاجی شاہ ، جو آجکل اٹک کے نامور وکیل ہیں ، اور میں جب بی اے کے امتحان کی تیاری کررہے تھے توایک مشترکہ لالٹین جلاکر آس پاس بیٹھ جاتے اور رات بھر پڑھتے رہتے ۔

ہمارے محلے امین آباد کے قریب ویرانے میں محلہ شاہ آباد کی حدود میں ھندووں کا شمشان گھاٹ تھا ، جہاں شھر کے آخری ھندو وکیل لالہ فقیر چند کا کریا کرم کیا گیا ۔

مجھے یاد ہے لالہ فقیرچند ایڈووکیٹ نابینا تھے ۔ بار روم کے برآمدے میں ایک ستون کے قریب ھندو پگڑی باندھ کر بیٹھے نظر آتے ، ان کا منشی انہیں اخبار پڑھ کر سناتا اور وہ چپ چاپ سنتے رھتے ۔

اخبار سے یاد آیا ، خزینہء علم و ادب ، کچہری روڈ پر اخبارات ، رسائل اور کتابوں کا مرکز تھا ۔ اس زمانے کے اخبار ، کوھستان ، امروز ، نوائے وقت اور تعمیر نمایاں تھے ، بعد میں جنگ اور مشرق اس قافلے میں شامل ہوگئے ۔ جو لوگ اخبار خرید کر نہیں پڑھ سکتے تھے ان کے لئے بلدیہ کی لائیبریری میں اخبار مہیاء کئے جاتے تھے ۔

معروف ریستورانوں میں ماسٹر فضل دین کا ھمدرد ، یہ اٹک کا پاک ٹی ھاوس تھا جہاں شاعر اور ادیب جمع ہوتے تھے ، چوک کے اندر تاج اور حبیب معروف ریستوران تھے ۔

(جاری ہے )

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

One thought on “کیمبل پور سے اٹک تک -1

Comments are closed.

Next Post

وجود کیا حباب کا

بدھ دسمبر 9 , 2020
مشبر حسین سید تصوف کے آدمی ہیں آپ جانتے ہیں کہ انسان کی صورت میں کون ہے تلاش خودی میں سرگرداں ہر مسافر جب اپنا بھید پا لیتا ہے تو اسے رب مل جاتا ہے
وجود کیا حباب کا

مزید دلچسپ تحریریں