بیاضِ مُحسنؔ

تحریر : ارشاد ڈیروی ، ڈیرہ غازی خان

اکثر اوقات انسان اپنے شہر کے نام کی نسبت سے پہنچانے جاتے ہیں ، ایسا بہت کم دیکھا گیا، کہ کسی شہر کا نام کسی انسان کی شخصیت سے پہچانہ جاتا ہو ، اگر کسی نے اُردو ادب کی جبیں پر ڈیرہ غازی خان لکھ دیا ہے، تو وہ سید محسنؔ نقوی ہیں ، شھید مُحسنؔ نقوی ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان کے جس محلہ میں پیدا ہوئے کھلیے کُودے جوان ہوئے اس محلہ کا نام مُحسنؔ نقوی کی ذات کی نسبت سے محلہ سادات مشہور ہوا، حریت پسند مزاج کے مالک طبیعت میں فقیرانہ رنگ دل میں کربلائی جذبات دماغ میں فکرِ سُخن آنکھوں میں ڈھلتی شام کے منظر جبیں پر عجزونیاز کی چمک کانوں میں محفلوں کی رس گھولتی گونج اور منہہ میں لچکدار لکھنوی زبان رکھنے والے مُحسن نقوی اپنے پروردگار کے سامنے سربسجود ہو کر درخواست کرتے ہیں ، کہ!


اے عالمِ نجوم وجوہر کے کردگار
مجھ کوبھی گرہِ شام وسحر کھولنا سِکھا

پلکوں پہ میں بھی چاند ستارے سجاسکوں
میزانِ خس میں مجھ کو گُہر تولنا سِکھا

اب زہر ذائقے ہیں زبانِ حروف کے
ان ذائقوں میں خاکِ شفاء گھولنا سِکھا

دل مُبتلا ہے کب سے عذابِ سکوت میں
تو ربِّ نطق ولب ہے مجھے بولنا سِکھا
موجِ اداک صفحہ نمبر11

Mohsin Naqvi


جناب ششفقتؔ کاظمی اور سید مخدوم نقوی کے زیرِ سایہ پلنے والا محسنؔ نقوی آہستہ آہستہ ادب کے ساتویں آسمان کوں چھونے لگا ، جھلملاتی ہوئی موسموں کی رنگت کو ساتھ ملا کر جب بھی کسی موضوع پر قلم چلاتے ہیں ، تو آفاقی لفظوں کی بارش ہونے لگ جاتی ہے، اور بارانِ رحمت کی وجہ سےشاعر کے کاسۂ دماغ سے شاعری کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تلمیحاتی جوش کی جُنبش میں قلم کے ذریعے کاغذ کی سلطنت پر اپنے تخیل کو ایسے تخلیق کرتا ہے، جیسے کوئی مصور اپنے شہکار کو؟ جب خالقِ کائنات مالکِ کونُ مکاں نے حضرت آدمؑ کو تخلیق کر کے اُس میں اپنی روح پھونک دی تو جنابِ آدمؑ نے اپنی پُرنور آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا ، کہ نور کے حجاب میں اسمِ محمدﷺکے نور کی کرنوں میں توحید کی مشیت کے راز پناہ گزیر ہیں ، حضرتِ آدمؑ نے بارگاۂ لم یزل میں سجدہ ریز ہو کر درخواست کی ، کہ اَئے زمین و آسمان کے پالنے والے ربّ یہ کونسی ہستی ہے، جس ہستی کو آپ نے میری تخلیق سے بھی پہلے تخلیق کیا ہے، اور اس ہستی کے اسم مُبارک کی "میم” کو ادا کرتے ہوئے میری زبان کو رسالتﷺ و نبوت اور امامت کی مِٹھاس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے،
جنابِ آدمؑ کی بات سن کر خدائے لم یزل نے ارشاد فرمایا، کہ !
البیان المغرب جلداول صفحہ224

اِسی کی خاطر سجا رہاں ہوں یہ ہفت عالم نگار خانہ
زمیں کے یہ رنگ رنگ موسم فلک کی رفعت کا شامیانہ
کہیں ستاروں کے آشیانے کہیں شہابوں کا تازیانہ
اسی کا صدقہ میری خدائی اس کی خیرات ہے زمانہ
ابھی تو اس کے خدوخال میں کَئی رنگ میں بھروں گا
میرا اردہ ہے روزِ محشر جو یہ کہے گا وہی کروں گا

تمام نبیوں کے قافلے کا یہی تو سالارِ کارواں ہے
میں بے نشاں ہوں مگر اسی کےوجود میں میرا نشاں ہے
یہ آشناۓمزاجِ رحمت ہے بخششوں سے بھرا جہاں ہے
اس کاراستہ ہی دوجہاں میں نجات آخر کی کہکشاں ہے
میں اس کا طالب ہوں سوچ لینا میرا مطلوب بھی یہی ہے
ہےاس کی تعظیم تجھ پہ واجب کہ میرا محبوبﷺ بھی یہی ہے

یہ کاروانِ امم کا سُلطاں اسی کو جچتی ہے کجکلاہی
کہ اس کی نعلین کو ترستی ہے، دوجہانوں کی بادشاہی
یہی تو ہے جو فرارِ فاراں پہ جاکے دے گامری گواہی
اسی کا کلمہ پڑھیں گے سارے شجر حجر مرغ و مہرو ماہی
مری رضا چاہیے تو میرے جبیبﷺ کے دل کو شاد رکھنا
یہ تیری خلقت سے پیشتر بھی نبیﷺ تھا یہ بات یاد رکھنا

یہ میم سے ممکنات عالم کے آسماں کامہہِ جبیں ہے
یہ ح سے حاکم ہے حکمتوں کا حکمتوں کا حکیمِ حق حرزِ مومنیں ہے
یہ میم سے ملتوں کا مرکز مُشیرِ اعمالِ مُرسلیں ہے
یہ دال سے درد کی دوا ہے دماغ چارہ گر یقیں ہے
یہی محمد ﷺہے ذات جس کی فلک پہ مشہور ہوگئی ہے
اس کے پردے میں چار ظاہر تھے ایک مستور ہوگئی ہے
کمالِ وحدت ہے نام اس کا جمالِ وجہ رَسول ﷺبھی ہے
یہ دین وایماں کی روح بھی ہے دلِ فروع واصول بھی ہے
نوید باغِ بہشت بھی ہے کلیدِ باب قبول بھی ہے
زمیں پہ ہو تو علیؑ کی زوجہ فلک پہ ہو تو بتولؑ بھی ہے
اس سے آغاز ہے امامت یہیں رسالت کا خاتمہ ہے
نظر اُٹھا کر نہ دیکھ آدمؑ حجابِ عصمت میں فاطمہؑ ہے
حقِ ایلیا صفحہ نمبر8

Books Mohsin Naqvi


جب رسالتِ مَآبﷺکےگلشن میں سورۃ الکوثر سے دُھلی ہوئی آیت تطہیر کے جُھرمٹ میں والضیٰ کی کلی طہٰ کا عطر لگا کر اپنا بشری روپ دھارنے لگی تو کِھل کھلاتے آسمان کی کہکشاں کے ستارے دَرودسلام کے ترانوں میں ڈوب کر انگڑائیاں لینے لگے جنت الفردوس کی حوریں محلۂ بنی ہاشم کا طواف کرنے لگیں جبرائیل آمین عرشی مخلوقات کے ساتھ محوئے یٰسین ہوا ندائے قدرت نے خلائی چاند کے سینے پہ اپنے نزول ہونے کی مہر لگا کر ملیکہ
العرب کی گود میں وجود پایا تو اس منظر کو شہید محسن نقوی نے یوں قلم بند کیا!
عجیب منظر ہے صحنِ مسجد میں سب کو الجھن پڑی ہوئی ہے
یہ وہ گھڑی ہے ، کہ سانس حلقومِ زندگی میں اڑی ہوئی ہے
تمام اصحابؓ دم بخود ہیں نظر زمین میں گڑھی ہوئی ہے
ہوئی ہیں مسند نشیں زہراؑ مگر نبوتؑ کھڑی ہوئی ہے
عمل سے ثابت کیا پیمبرؑ نے جو تھا پیغام کبریا کا
بشرتو کیا انبیاء پہ بھی احترام لازم ہے فاطمہؑ کا

یہ ف سے فہم بشر کا حاصل الف سے الحمد کی کرن ہے
یہ ط سےطہٰ کے گھر کی رونق یہ میم سے منزلِ محن ہے
یہ ہ سے ہر دوسرا کے سُلطان کے دیں کی پُرنور انجمن ہے
یہ زسے زینت زمیں کی ہ ہدایتوں کا ہرا چمن ہے
یہ رسے رہبر رہِ وفا کی الف سے اول نسب ہے اسکا
اسی لیے نام فاطمہؑ ہے جنابِ زہراؑ لقب ہے اسکا

یہ ایسی مشغل ہے جس کی کرنوں سے آڳہی کے اصول چمکے
اسی کےدم سے زمانے بھرکی جبیں پہ نامِ رسول چمکے
نجوم کرنوں کی بھیک مانگیں جو اس کے قدمو کی دھول چمکے
کہاں یہ ممکن ہے چاند شب کو بغیر اِذنِ بتولؑ چمکے
جو مجھ سے پوچھو تو عرض کردوں قیاس آرئیاں غلط ہیں
یہ چاند میں داغ کب ہے لوگو جنابِ زہرا کے دستخط ہیں

حیاکی دیوی وفا کی آیت حجاب کی سلسبیل زہراؑ
کہیں ہے ، معصومیت کا ساحل کہیں شرافت کی جھیل زہراؑ
جہانِ موجود میں بنی ہے وجود حق کی دلیل زہراؑ
زمانے بھرکی عدالتوں میں نساء کی پہلی وکیل زہراؑ
حضورِ زہراؑ بشر سے ہٹ کے پیغمبروں کے سلام بھی ہیں
کہ اس کے سائے میں پلنے والے حسینؑ جیسے امام بھی ہیں

تو ایسا نقطہ ہے جس کے دامن میں حق کی مرضی سمٹ رہی ہے
تری مشیت ہر ایک لحظہ نقابِ ہستی الٹ رہی ہے
ہے جس قیامت کا نام بخشش تری ردا سے لپٹ رہی ہے
یہ سانس لیتی ہے ساری دنیا کہ تیری خیرات بٹ رہی ہے
تری عطا کے سبھی سلیقے مرے دلِ حشر خیز میں ہیں
سبھی ہواؤں پہ راج تیرا سبھی سمندر جہیز میں ہیں

لکھا ہے میں نے جویہ قصیدہ نہیں ہے کوئی کمال میرا
یہ سب کرم ہے تری نظر کا قلم تھا ورنہ نڈھال میرا
درِ پیغمبرﷺ پہ دے کے دستک پلٹ پڑا پھر خیال میرا
زمانےکے مؤرخوں سےہے احتجاً سوال میرا
بتاؤ امت کا ظلم اپنے نبیﷺ کی بیٹی کے ساتھ کیوں ہے
بتاؤ اب تک جنابِ زہراؑ کا ایک پہلوپہ ہاتھ کیوں ہے
مراثِ محسنؔ صفحہ نمبر110

بیاضِ مُحسنؔ


اس میں شک نہیں کہ خاندانِ بنو ہاشم کے ساتھ کفارِ مکہ کے اچھے سلوک نہیں تھے جب سے رسالتِ مَآب ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو حالات اور زیادہ بگڑنے لگے بنواُمیہ کی خفیہ شراتو کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دن حضور سرورِ کائنات ﷺ توحید کی بارگاہ میں اپنے ربّ کے حضور بحالتِ سجدہ عرض کیا کہ اے میرے رحمٰن الرحیم خالق جس طرح تو نے جنابِ موسیٰؑ کی مددکے لیے اُن کے بھائی ہارونؑ کو مقرر کیا تھا، اُسی طرح مجھے بھی میرا مدد گار بھائی عطا فرمادے تاکہ میں تیری توحید اور اپنی رسالت کا پرچار بے خوف وخطر کر سکوں اے میرے مالک تو مسبب اُلاسباب ہے، اور میں تیرا کاربند ہوں۔ ابھی نبوتﷺ مصورفِ مناجات تھی ، کہ ادھر صبح کی نماز کے لیے حرمِ ابوطالبؑ نے حرم خدا کا رخ کیا اور صبح کی نماز وتعقیبات سے فارغ ہو کر جنابِ فاطمہؑ بنت اسدؑ طوافِ کعبہ کرنے لگی تو ایک غیبی آواز نے امامت کے
ظہور ہونے کی نوید سُنا دی الریاض النضرہ فی مناقبِ عشرہ مبشرہ جلد6 صفحہ 268

بنتِ اسدؑ چلی یہ صدائیں لیے ہوئے
ہونٹوں پہ باوقار دعائیں لیے ہوئے
آنکھوں میں اوج حق کی رضائیں لیے ہوئے
قدموں میں انبیاء کی ادائیں لیے ہوئے
چہرے پہ عکسِ موجِ ادب کا سرور ہے
پہلو میں اُن کی پہلی امامت کا نور ہے

وہ انبیاء کا قافلہ اِک دم ٹھہر گیا
ہر سو ہے شورِ سلّمہا وردِ مرحبا
بنتِ اسد چلی ہے سوئے خانۂ خدا
سب سے الگ کھڑے ہیں وہ سردارِ انبیاء
ساعت یہی ہے حق کے شہود کی
ذروں سے آرہی ہیں صدائیں درود کی

لیکن درِ حرم تو مقفل ہے اس گھڑی
بنتِ اسدؑ یہ دیکھ کے واپس پلٹ پڑی
نازل ہوئی فلک سے وہ الہام کی لڑی
آئی صدا نہ جا گُل عصمت کی پنکھڑی
دیوار در بنے کہ زمانے میں دھوم ہو
ظاہر کمالِ مادرِ بابِ علوم ہو

آدمؑ بچھا رہا ہے دعاؤں کی چاندنی
ایوبؑ اپنے صبر سے کرتا ہے روشن
ہے آب دار نوحؑ سا انسان کا نجی
آیا ہے خِضرؑ ساتھ لیے خُمس زندگی
یعقوبؑ بھی ہے آنکھ کی مستی لیے ہوئے
یوسفؑ ہے ساتھ مشعلِ ہستی لیے ہوئے

عوروہ کے گیسوں سے مصلّے بُنے ہوئے
پھر اُن پہ کہکشاں کے ستارے چُنے ہوئے
موجِ درود میں ملک سر دُھنے ہوئے
پہلے نہیں یہ گیت کسی کے سُنے ہوئے
رتبہ مِلا وہ محفلِ سدرہ جبین کو
جُھک جھک کے آسمان نے دیکھا زمین کو

آدمؑ ہے خوش کہ اس کی دُعا کو اثر مِلا
عیسیٰؑ ہے رقص میں کہ کوئی چارہ گرملا
ایوبؑ کو بھی صبر کا شیریں ثمر ملا
یوسفؑ کو اپنے حسن کا پیغام برملا
مسرور ہے فضا کوئی محشر بپا نہ ہو
سہمے ہوئے ہیں بت کہ حقیقی خدا نہ ہو

بنتِ اسدؑ کی گودسے اُبھرا اِک آفتاب
ہاں اے تراب تجھ کو مبارک ہو بوتراب
کوثر چھلک ذرا ترا ساقی ہے لا جواب
بطحا کی سرزمین سلامت یہ انقلاب
عمرانؑ جھومتے ہیں کہ زہرہ جبیں تو ہے
اب خوش ہیں مصطفیٰؑ کہ کوئی جانشیں تو ہے

وہ دیں کی سلطنت میں شرافت کا تاجدار
وہ مظہر جلالِ خداوندِ روز گار
وہ بوریا نشیں وہ شہہ کہکشاں سوار
وہ بندۂ خدا وہ خدائی کا افتخار
جس کےقلم کی نوک بلاغت کی راہ تھی
جس کے علم کی چھاؤں رسالت پناہ تھی

ایسا کریم جس کے کرم کی نہ حد ملے
ایسا علیم علم کو جس سے مدد ملے
ایسا عظیم جس کی ادا میں احد ملے
ایسا سلیم جس میں شعورِ صمد ملے
دنیا ودین میں جس کو وہ نام و نسب مِلا
خالق کی بارگاہ سے حیدرؑ لقب ملا
مراثِ محسن صفحہ 385


جس طرح فضائل محمد ﷺوآلِ محمدﷺ کی مستی میں محسن نقوی کے قلم سے لفظوں کے پھول مودت کی خوشبو بکھیرتے ہیں اس طرح غمِ حسینؑ میں درد سے نڈھال ہو کر جب رزمیہ شاعری کی طرف آتے ہیں تو اُن کے الفاظوں کی شدت ہر دل رکھنے والےانسان کے دل میں نوکِ نشر کی
طرح کا م کرتی ہے۔

ماتم کرو کہ عظمتِ انساں اُداس ہے
دن ڈھل چکا ہے شامِ غریباں اُداس ہے

لاشِ حسینؑ دھوپ کے صحرا میں دیکھ کر
دوشِ رسولﷺ تخت سلیمانؑ اُداس ہے

شبیرؑ تیرے آخری سجدے کی یاد میں
بے چین ہے نماز تو قرآں اُداس ہے

کِن بیبیوں کے سوگ میں کوفہ کے ساکنو
گلیاں ہیں شرمسار چرغاں اُداس ہے

گونجے کہیں سے خطبۂ شبیرؑ پھر کہیں
اے کردگار گردشِ دوراں اُداس ہے

محسنؔ طلوعِ ماہِ محرم کے ساتھ ہی
ہر دل مثالِ شہرِ خموشاں اُداس ہے
فراتِ فکر صفحہ149
ادب اُردو کی سنگلاخ زمینوں اور مشکل مشکل ردیف و قافیہ ساتھ قلم کی نوک سے اچھے اچھے شہر نکالنا ہر کسی کا کام نہیں ایسا مہارتی کام وہ شاعر کی سکتا ہے جس کا ماننا یہ ہو کہ ، میں نے محسوس کیا ہے، کہ صرف وہی لفظ زندہ رہتے ہیں جو ذہنوں سے دل تک اُتر نے کی صلاحت رکھتے ہوں میں جو محسوس کرتا ہوں اُسے اپنے فنی معیار پرجانچنے پرکھنے کے بعد پوری دیانتداری سے کاغذ پر بکھیر دیتا ہوں میری شاعری کو جھوٹ بولنا نہیں آتا شہید محسن نقوی ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے، جن کی آواز سے مطلب صاف واضح ہو جاتا ہو اور نئے نئے محاورے انہی کےقلم کی وجہ سے داخلِ زبان ہوئے ہیں زبان کی صحت وصفائی کے واسطے محسنؔ نقوی کے سوا اور کون مستند ہو سکتا ہے، محسنؔ نقوی اپنے دور کے نقادوں سے اُکھڑے اُکھڑے موسموں کی طرح ہر وقت اُکھڑے رہتے تھے، بقول محسنؔ نقوی مجھے میرے بزرگ معاف رکھیں گے کہ میں موجدہ دور کے ادبی نقاد کے معیارِ تنقید سے مطمین نہیں ہوں میں جانتا ہوں کہ میرے عہد میں دوچار قدآور نقادوں کو چھوڑ کر باقی صاحبانِ بصیرت اپنے اپنے خود ساختۃ ادبی قبیلوں کے گنے چُنے افراد کی تعریف و توصیف کے علاوہ کسی بھی فنکار کو خاطر میں لانا ادب کے قبائل نظام کی مروجہ روایات کے منافی سمجھتے ہیں وہ میری شاعری پر تنقید وتبصرہ کرکے اپناوقت کیوں ضائع کریں یہاں تو شاداب ذہنوں کی سوچیں نوچ لی جاتی ہیں۔

Irshaad Dervi

 ارشاد ڈیروی

 ڈیرہ غازی خان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سیاست یا سرکس 

بدھ اگست 3 , 2022
شیطانی سیاست سیاست کی اس قسم میں سیاست دان یا حاکم ، ریاست اور رعایا کو نہیں بلکہ خود کو مضبوط و مستحکم اور خوشحال بنانے کی تدبیر کرتا ہے ۔
سیاست یا سرکس 

مزید دلچسپ تحریریں