ادارہ شماریات کے اعداد و شمار اور مہنگائی کا طوفان
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
ملک میں مہنگائی کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، مگر حالیہ حکومتی فیصلوں نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگرچہ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مجموعی مہنگائی کی شرح میں کمی دیکھی جا رہی ہے، مگر حکومتی سطح پر قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ یکم نومبر سے پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ اوگرا نے ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے، حالانکہ عالمی سطح پر نرخوں میں پانچ فیصد کمی کی اطلاعات بھی ہیں۔
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ کوئی نیا نہیں۔ مختلف حکومتیں وقتاً فوقتاً ان قیمتوں میں تبدیلی کرتی رہی ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور مالیاتی دباؤ کے باعث ہر حکومت نے ٹیکس، لیوی، اور دیگر ذرائع سے عوام پر بوجھ ڈالا ہے۔ ایک طویل عرصے سے پٹرولیم لیوی ایک اہم ذریعہ آمدنی کے طور پر استعمال ہو رہی ہے، اور حالیہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پٹرولیم لیوی سے 261 ارب 69 کروڑ روپے وصول ہوئے ہیں، جو کہ متوقع ہدف سے 39 ارب 62 کروڑ روپے زیادہ ہیں۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ بار برداری کے کرایوں میں اضافے سے اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ منافع خوروں کو اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کا موقع مل جائے گا، اور عام صارف جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، مزید مشکلات کا سامنا کریں گے۔ اس کے علاوہ، عوام کی قوت خرید پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور غربت کی شرح میں اضافے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔
حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ لیوی یا ٹیکس کم کر کے پٹرولیم کے نرخوں کو نیچے لایا جائے گا، مگر یہ وعدہ محض الفاظ اور زبانی جمع خرچ کی حد تک ہی رہا۔ حقیقت میں لیوی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا۔ اگر حکومت واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی تو پٹرولیم لیوی میں کمی کی جا سکتی تھی تاکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں معتدل رہیں۔ عوامی مفادات کے برعکس حکومتی فیصلے اور لیوی کا مسلسل اضافہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومتی ترجیحات عوامی مفاد کے بجائے مالی وسائل کو بڑھانے پر مرکوز ہیں۔
حکومت نے عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو بنیاد بنا کر قیمتوں میں اضافے کا جواز پیش کیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں پانچ فیصد کمی کی اطلاعات بھی آرہی ہیں۔ حکومتی بیانیے اور عالمی قیمتوں کے فرق نے عوامی اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عالمی منڈی کے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرے تاکہ شکوک و شبہات کو دور کیا جا سکے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار اور حکومتی فیصلے عوام میں تضاد پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پٹرولیم لیوی میں کمی کرے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عوام کے لیے قابل برداشت بنائے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نہ صرف مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا بلکہ معاشرتی اور اقتصادی سطح پر بھی اس فیصلے کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اگر حکومت واقعی ملک میں مہنگائی کم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے ، ورنہ عوام کو مشکلات کے بھنور سے نکالنا ممکن نہیں رہے گا۔
Title Image by Wynn Pointaux from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔