بل فائٹنگ اور انسانی نفس
بل فائٹنگ ہسپانوی ثقافت کا قدیم اور روایتی کھیل ہے جس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو "خطروں کے کھلاڑی” کہا جاتا ہے۔ یہ کھیل دنیا کے چند مغربی ملکوں میں بہت مقبول کھیل ہے۔ اس کھیل کا آغاز سپین میں دو ہزار سال پہلے ہوا۔ فرانس میں اس کھیل کو "کوریڈاک” کے نام سے جانا جاتا ہے جو ایک روایت، ایک تفریح اور بیل کے ساتھ ایک رقص ہے۔ کوریڈا جس میں، عام طور پر چمکتا ہوا لباس پہنے ایک میٹاڈور کی تلوار کے زور سے، جانور مارا جاتا ہے، اس کھیل کے چاہنے والوں کے لیئے یہ ایک قدیم روایت ہے جسے برقرار رکھا جانا چاہئے۔ لیکن ناقدین کے لئے یہ ایک ظالمانہ رسم ہے جس کی جدید معاشروں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ فرانس کے کچھ حصوں میں بل فائٹنگ کی قانون اجازت دیتا ہے جہاں ہر سال ایک ہزار کے قریب بیل مارے جاتے ہیں۔
فرانسیسی شہر نیمز جسے فرانس کا روم بھی کہا جاتا ہے میں ہر سال منعقد ہونے والے 14 بل فائٹنگ شوز سے تقریباً 60 ملین یورو کی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ ایک جسمانی مقابلہ ہے جس میں عام طور پر ایک کھلے میدان میں ایک آدمی قواعد یا ثقافت کے مطابق ایک سرخ رومال لہرا کر بیل کو بار بار جھانسا دیتا ہے، بیل کے حملے سے کنی کتراتا ہے اور قابو کرنے یا اسے جان سے مارنے کی کوشش کرتا ہے۔
فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک میں یہ بحث چلتی رہتی ہے اور اس کے خلاف حیوانات کے حقوق کے ہزاروں حامی مظاہرے بھی کرتے رہتے ہیں کہ بل فائٹنگ کھیل ہے یا تشدد یے؟ لیکن اس کے باوجود سپین اور فرانس میں ہر سال بل فائٹنگ کے درجنوں میلے لگتے ہیں اور یورپ بھر سے ہزاروں شائقین انہین دیکھنے کے لیئے امڈ آتے ہیں۔
آپ نے بھی بل فائٹنگ کا کھیل ویڈیوز وغیرہ میں ضرور دیکھا ہو گا کہ ایک غصیلا بیل تماشائیوں سے بھرے سٹیڈیم کے درمیان میدان میں ہوتا ہے. ایک کھلاڑی جس کے پاس اکثر ایک لال رنگ کا رومال ہوتا ہے. وہ یہ رومال لہرا کر بیل کو دوڑاتا ہے اور اسے مزید غصہ دلاتا ہے. بیل اس کو مارنے کیلئے اس پر حملہ آور ہوتا ہے مگر کھلاڑی بہت مہارت سے اچانک ایک طرف ہو کر خود کو بچا لیتا ہے.
سپین اور فرانس کے میدانوں میں تماشا بنے ان بیلوں کی پرورش بہت مخصوص فارمز میں ہوتی ہے. یہ بہت بڑے بڑے میدان ہوتے ہیں جہاں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ بیل کم از کم انسانوں کو دیکھیں تاکہ یہ انسانوں سے مانوس نہ ہوں. پھر جب ایک دن ان کو اٹھا کر سٹیڈیم میں ہزاروں انسانی تماشائیوں کے درمیان ڈال دیا جاتا ہے تو یہ بوکھلا جاتے ہیں. ان کی اسی بوکھلاہٹ پر "بل فائٹنگ” کا تماشا سجتا ہے.
الورو منیرو بھی ایک سپینش بل فائٹر تھا. ایک دن وہ بل فائٹنگ کے میدان میں بوکھلائے ہوئے بیل کے سامنے تھک کر بیٹھ گیا. الورو کہتا ہے بیل مجھے مارنے کی بجائے میرے سامنے کھڑا ہو گیا. اس دن پہلی دفعہ میں نے بیل کی بجائے اس کی معصوم آنکھوں میں جھانک کر دیکھا. مجھے محسوس ہوا جیسے وہ بہت معصومیت سے مجھ سے پوچھ رہا ہو کہ آخر میں نے تمہارا یا ان تماشائیوں کا کیا بگاڑا ہے؟ تم مجھے مار سکتے ہو اور مار بھی دو گے لیکن آخر کیوں؟
اس دن کے بعد الورو نے یہ میدان ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا. وہ سپین اور دنیا بھر میں ہونے والی بل فائٹنگ کے خلاف کھڑا ہو گیا. ہر انسان میں اس کے نفس کی شکل میں ایک اذیت پسند شیطان چھپا ہوتا ہے جو دوسروں کی تکلیف اور اذیت کو اس کے لیئے تسکین کا سامان بناتا ہے. وہ ان کی بوکھلاہٹ سے مزہ لیتا ہے. ایسے اذیت پسند ہمیشہ اپنی مرضی کا میدان سجاتے ہیں. وہ کبھی دُنیا کو یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے کیسے کسی کو شدید ردعمل پر مجبور کیا. لیکن وہ اس ردعمل کو جواز بنا کر دوسروں کی بربادی کو جائز بنانے کی کوشش کرتے ہیں.
دوسرے ہم نوع انسانوں کی مجبوریوں یا کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر آگے تو بڑھا جا سکتا ہے اور جیت بھی حاصل کی جا سکتی ہے مگر یہ انسان کی ایسی نفسیات ہے جس کے ذریعے ایک انسان دوسرے انسان کے خوابوں سے کھیلتا ہے۔
لیکن انسان ہو یا جانور ان کی آنکھیں جھوٹ نہیں بولتی. انسانیت دوسروں کی آنکھ میں سچ کی تلاش اور اپنے جھوٹ پر احساس ندامت کا نام ہے.
انسانیت پر یقین رکھنے والے لوگ یہ تلوار خود اپنے ہی بھبھرے ہوئے جانور نما نفس کے خلاف اٹھاتے ہیں اور ہمیشہ فتح یاب ہوتے ہیں کیونکہ اذیت پسند شیطان کو شکست دینا ہی انسانیت کی جیت ہے.
یاد رکھیں دوسروں کی مجبوریوں اور بوکھلاہٹ سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور اسے اپنے اور دوسروں کے لیئے باعث تسکین بنابا بدترین عمل ہے جو آدمی کو انسانیت سے گرا کر جانور بنا دیتا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔