بہادر کالم نگار
کالم نگاری کے بہت سے لوازمات ہیں۔ان لوازمات میں جو چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں وہ یہ ہیں:آرٹ،وسائل،تعلقات،تعلیم،اعتماد،جملہ سازی،معلومات،باریک بینی، احسا س ، بیدار مغز،کھوج، قوتِ فیصلہ،بہادری ،ایمان داری ،سچائی ،غیر جان داری وغیرہ۔
اگرچہ مذکورۂ بالا تمام چیزیں اور صفات کالم نگار اور کالم نگاری کے لیے ضروری ہیں لیکن کالم نگار بہادر نہیں ہو گا،تو وہ کبھی کامیاب کالم نگار نہیں بن سکے گا۔اس لیے میرے نزدیک بہادری اور دلیری ایک کامیاب کالم نگار کے لیے پہلی شرط ہے۔اگر وہ بہادر نہیں ہو گا تو اپنے مطالعے،مشاہدے،ایمان داراور بیدار مغز ہونے کے باوجود وہ جو نتیجہ اخذ کرے گا، اسے اپنے کالم میں بیان نہیں کر پائے گا۔جس کی وجہ سے اس کی تحریر میں کشش نہیں ہو گی،اس کے قاری کم ہوتے جائیں گے ۔اس کی ساری زندگی کی کالم نگاری خاک میں مل جائے گی۔
خوف انسان کی زبان بند کرا دیتا ہے۔بزدلی مصلحت کے پیچھے چھپ جاتی ہے۔مصلحت اسے پیچھے ہٹ جانے کی تاکید کرتی ہے۔جبر اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتاہے۔ اگرکالم نگار نے خوف کو اپنے اوپر سوار کر لیا تو وہ کبھی ایسا کالم نہیں لکھ پائے گا جو صدیوں بعد بھی پڑھا جاتا ہے ؛جس کو اپنی کتاب میں حوالے کے طور درج کرتے ہیں۔
اگر صرف اردو کالم نگاری کی روایت ہی کو دیکھا جائے تو شہرت اور نام وری کی پہلی قطار میں وہی کالم نگار نظر آئیں گے جنھوں نے جبر،خوف،اور لالچ کا ہاتھ جھٹک دیا تھا ۔انھوں نے اپنے کالم میں وہی لکھا جو دیکھا تھا۔انھوں نے حالات،واقعات اور مشاہدے سے جو نتائج اخذ کیے،انھیں کو اپنے کالم میں کیا۔ ایسے کالم نگاروں نے موت کا ذائقہ بھی چکھا،پابندِ سلاسل بھی ہوئے،ان کے اخبارات بند کر دیے گئے۔ان پر بھاری تاوان کا بوجھ بھی ڈالا گیالیکن وہ بہادری سے سب مصائب کا مقابلہ کرتے رہے۔اسی بہادری کی وجہ سے آج تاریخ میں صرف ایسے کالم نگاروں اور مدیروں کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے سخت حالات کا دلیری سے مقابلہ کیا۔مصلحت کیش،بزدل،لالچی لکھنے والوں کے نام ان کی تدفین کے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔مولوی محمد باقر،مولانا محمد علی جوہر،حسرت موہانی وغیرہ سے ارشد شریف تک صحافت سے منسلک جتنی شخصیات نام ور ہوئی ہیں،اپنی بے باکی اور دلیری کی وجہ سے نام ور ہوئی ہیں۔
عام قسم کےموضوعات پرلکھنے والے عام انداز کے کالم نگار سیکڑوں ہو تے ہیں لیکن نڈر ہو کر اپنا مؤقف اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے والے سیکڑوں میں ایک دو ہی ہوتے ہیں۔سچ پوچھیے تو کالم نگاری کی شان یہی ہے کہ حقائق کو ایمان داری سےاور بے خوف ہو کر بیان کیا جائے؛لیکن آپ ہی بتائیے کہ اس شان والے کالم نگار ہمارے معاشرے میں کتنے ہیں!
شہزاد حسین بھٹی کا شمار بھی ایسےہی چند کالم نگاروں میں ہوتا ہے جو قوتِ فیصلہ سے لب ریز ہیں اور نڈر ہو کراپنا مافی الضمیربیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔انھوں نے بے خوف ہو کر کالم نگاری کی ہے؛ حالات ، واقعات اوران سے جڑی ہوئی شخصیات کے بارے میں بے خطر لکھا ہے۔
ہمارے ہاں کالم نگاری کا عمومی چلن یہی ہے کہ اگر کسی بڑے عادی مجرم یا کسی ایسی سیاسی،مذہبی یا سماجی شخصیت جسےکسی جتھے کا تعاون حاصل ہے؛ڈر کے مارےاس کا نام اپنےکالم میں نہیں لکھتےکہ مبادا کسی قسم کا نقصان ہو جائے لیکن شہزاد بھٹی نے مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئےاپنے کالموں میں ذمہ داروں کے نام لکھے ہیں ۔یہی وہ خوبی ہے جو شہزاد حسین بھٹی کو ہم عصر کالم نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ میں اس کی کالم نگاری اور کالم نگاری کے اس رویے اور روش کو قابلِ داد اور قابلِ تقلید سمجھتا ہوں۔
ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔