(16 دسمبر سانحہ ء پشاور)
دسمبر کی وہ سولہ تھی
پشاور پہ خموشی تھی
سراسیمہ سی ماوں نے
اٹھایا اپنے بچوں کو
کھلایا وقت پر کھانا
کتابیں ڈالیں بستے میں
تیاری کے وہ عالم میں
یہ بچوں کو بتاتی تھیں
اگر تم کو کوئی مارے
ستمگر آ کے گولی سے
مرے بچو، نہ ڈرنا تم
عدو کے سامنے جانا
چھپانا نہ جگر اپنا
کلیجہ سامنے رکھنا
ڈرانا اس کو بستے سے
قلم لہرا کے یہ کہنا
وطن کا میں تو بیٹا ہوں
عدو سے میں نہیں ڈرتا
چلاو تم ذرا گولی
دکھاو بزدلی اپنی
بجھائے گی تری طاقت
دیا کیسے پشاور کا
یہ سن کر ماں کی سب باتیں
گئے بچے سکولوں میں
گرج اک پھر سنائی دی
ہوا یوں کہ پشاور میں
دھماکے کی صدا اٹھی
سنی اک تڑتڑاہٹ جو
تو مائیں دوڑتی آئیں
جہاں پہ بچے بھیجے تھے
وہاں بستے کتابیں سب
قلم زخمی ہوئے ایسے
کہ جن کی روشنی ہر سو
مٹاتی تیرگی کو تھی
وہاں پہ پھول چھلنی تھے
کتابیں چیختی دیکھیں
قلم روتے ہوئے دیکھے
مگر بچے شہادت پہ
بہت نازاں و فرحاں تھے
سراسیمہ سی نظروں سے
بتاتے تھے وہ ماوں کو
کہ ہم نے لاج رکھ لی ہے
وطن کی آبرو رکھ لی
بتایا یہ بھی ماوں کو
اگر دشمن کبھی آئے
وہ پھر سے حملہ آور ہو
اسے پیغام یہ دینا
ہمارا دل ،جگر قرباں
وطن پہ جان بھی قربان
اسے کہنا کہ ہم اب بھی
حسینی ہیں حسینی ہیں
علی اصغؑر کے فوجی ہیں
تو ڈر کیسا، نہیں ڈرتے
نہیں ڈرتے،نہیں ڈرتے
مقابل آ کے دشمن سے
جگر کو زخمی کر کے ہم
قلم سے اپنے لڑتے ہیں
کتابیں ڈھال اپنی ہیں
عدو ! تُو سوچ کر مر جا
کہ تو بچوں کا قاتل ہے
کہ تو بچوں سے ڈرتا ہے
سید حبدار قائم آف غریبوال اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔