منتہائے فکر
تحریر : ڈاکٹر طارق محمود آکاش ، سیالکوٹ
دبستانِ تھل کے افق پر ابھرتا اور چمکتا ہوا معروف و مقبول ادبی ستارہ مقبول ذکی مقبول ہر نئے دن کے ساتھ ترقی کی نئی منازل طے کرتا ہوا آگے ہی بڑھتا جا رہا ہے ۔ آپ کا تعلق ضلع بھکر کی تحصیل منکیرہ سے ہے ۔ خود غرضی ، بغض ، حسد ، کینہ پروری کے آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہی ہے جو اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ ہیں ۔ مگر چہرے پر مسکراہٹ سجائے مقبول ذکی مقبول ہر وقت اہل علم و ادب کی تلاش میں کھڑے ہیں ۔ روزانہ فون کرکے تمام متعلقہ احباب کا حال احوال پوچھنا ان کا اضافی وصف ہے ۔ قلم ہر ایک کے پاس ہوتا ہے ۔ مگر اسے چلانے کا ہنر اور سعادت اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کسی کسی کو نصیب کرتا ہے اور پھر آل نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور اولاد علی علیہ السلام کی شان لکھنا تو لاکھوں کروڑوں رحمتوں کی بدولت ہوتی ہے ۔ الحمدللّٰہ مقبول ذکی مقبول کے حصے میں یہ سعادت آئی اور ان کا قلم ذکر شبیر علیہ السلام میں چلنے لگ گیا ۔
ابنِ علی کی شان میں مقبول کیا کہوں ۔ ؟
یہ شاعری بھی کرتا ہوں میں جان کر ثواب
علی علیہ السلام کے گھرانے کے بارے لکھنا ، پڑھنا ، سوچنا ، یاد کرنا یہ سب ثواب ہی تو ہے ۔ مقبول ذکی مقبول کی کتاب ” منتہائے فکر” پڑھ کر بے شمار دعائیں ان کے لئے نکلتی ہیں ۔ خدا ان کے لکھے ہر ہر لفظ کے بدلے ہم سب کی مغفرت کرے
کیسے قلم پہ آئے گی مولا تیری ثناء
گود رسول کا ہے تو پالا لگائی چھاپ
” منتہائے فکر ” کا ہر کلام یاد شبیر علیہ السلام دلا کر ہلا کر رکھ دینے والا ہے ۔
مولا حسن کا کہنا ہے یہ غم شبیر کریں گے مومن
ارض و سماء یا شبر جیسے مولا پاک ولی سے پوچھ
مقبول ذکی مقبول نے اپنے پاک ” لوتر”
قلم کے ساتھ سے "سجدہ” کیا اور پھر”سجدے” میں کی گئی عاجزی کے ساتھ مانگی دعا مقبول ہوئی اور ان کے قلم سے” منتہائے فکر” جیسا مجموعہ کلام لکھا گیا اور پھر ان کی بارگاہ شبیری میں منظوری کے بعد بھی اللّٰہ رب العزت نے ان کی مقبولیت میں اضافے کی منظوری دی اور ان کا قلم آگے سب آگے بڑھ رہا ہے ۔
لہو سے تیرے جہان روشن
سنان پر بھی بیان روشن
میری اللّٰہ پاک کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں ، دین حق سمجھنے سیلکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا کرے اور میرے بھائی مقبول ذکی مقبول کو مزید ترقی عطا کرے اور ان کے سمے ہماری بھی اس پاک ہستی کے حیلہ وسیلہ سے مغفرت فرمائے اللّٰہ کرے زور قلم زیادہ
ڈاکٹر طارق محمود آکاش
سیالکوٹ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔