اٹک اور اس کے گرد و نواح میں پاۓ جانے والے آثار قدیمہ اور ان کی اہمیت کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔غرض اٹک میں کچھ ایسے آثار قدیمہ بھی ہیں جن کا ذکر آج تک پوشیدہ ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اٹک کی تہذیب انتہائی قدیم ہےاور یہ سرزمین ہر دور میں توجہ کا مرکز رہی ہے۔
اٹک میں آنے والی ہر تہذیب نے اپنے وجود کے اثرات چھوڑے ہیں اس کے باوجود کچھ تعمیرات ایسی ہیں جن کا وجود مٹ چکا ہے مگر ان کا ذکر تاریخ میں واضع ہے۔ ایسی ہی ایک تعمیر "اٹک کا کشتیوں والا پُل”بھی ہے۔ اس کو انگریزی میں بوٹ برج کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اٹک بوٹ بریج کی تعمیر برطانوی حکومت نے کی تھی جس کے ذریعے جنگی سامان کی آمد و رفت کی جاتی تھی ۔پُل کا استعمال سردیوں میں کیا جاتا تھا کیوں کے گرمیوں کے موسم میں مون سون بارشوں کی وجہ سے کشتی کا طویل سفر ممکن نہیں ۔
کرنل کے۔اے راشد کے مطابق پُل کی لمبائی لگ بھگ ۱۵۰ گز تھی ۔اسکا ابتدائی مقام ملاحی ٹولہ جب کہ اختتامی مقام خیر آباد گاؤں تھا۔ ۱۸۸۳ میں برطانوی حکومت نے اٹک پُل تعمیر کیا جس کے بعد کشتیوں والے پُل کا استعمال کم یا تقریباً ترک ہی کر دیا گیا ۔اس پُل کو استعمال میں لاتے ہوئے فیری بوٹس اور ہلکی قطاریں چلانے والی کشتیاں چلائی جاتی تھیں جو ڈاک کے مقصد کو پورا کرتی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ بادشاہ اکبر نے اپنے دور میں قریبی علاقوں سے بہترین ملاح بلوا ۓ تھے جنکو ملاحی ٹولہ گاؤں میں آباد کیا گیا تھا اور اس علاقے کو ملاحوں کی رہائش گاہ یعنی ملاحی ٹولہ اسی نسبت سے کہا جاتا ہے۔
دوسری برطانوی افغان جنگ کے دوران اس پُل کا استعمال جنگی سامان کی برآمد کے لیے کیا گیا تھا۔
جون بروک ایک فوٹو گرافر تھے جو ۱۸۷۸ میں جنگ کے دوران فوٹو گرافی کرنے اٹک آ ۓ تھے ۔انہوں نے اس بوٹ بریج کی ایک نایاب تصویر اپنے کیمرے کی آنکھ میں قید کرلی تھی جو آج بھی برٹش لائبریری میں موجود ہے۔ جون نے اپنی تحریر میں پُل کا ذکر "پونٹون”کے نام سے کیا ہے جس کے معنی تیرنے والے پُل کے ہیں۔ یہ ایک نایاب پُل تھا جس کے اثرات موجود نہیں مگر تاریخ اس کے وجود کا پتا دیتی ہے۔ اٹک کے آثار قدیمہ کی سیر کا یہ سفر جاری رہے گا۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔