تحقیق و تحریر: شہزاد حسین بھٹی
کالم: سین
قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی روایت تو بہت قدیم ہے۔مگرانگریزوں کے قید خانوں کی داستانوں میں سب سے بھیانک ”کالے پانی کی سزا“ یعنی ایڈیمان کے جزیرہ میں قیدکی روایت ہے جس کا تسلسل گوئنٹانا موبے کے جزیرے تک پھیلا ہواہے۔ جزیرہ ایڈیمان کی بندرگاہ کا نام ا س زمانے سے بلیئر پورٹ چلاآرہاہے۔یہ نام آر چی نالٹ بلیئر کے نام پر رکھ گیا تھا جس نے1782ءمیں پہلی بار اس جزیرہ پر قبضہ کیاتھا۔لیکن غیر صحت مندانہ فضا اور سانپوں اور بچھووں کی کثرت کی وجہ سے 1796 ءمیں اس جزیرے کوآزاد کردیا تھامگر 1857ءکی جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے اس جزیرے کی ضرورت کو محسوس کیا اور 1858 ءمیں دوبارہ اس پر قبضہ کرکے اسے انسانی تاریخ کی سب سے خوفناک جیل میں تبدیل کر دیا۔ جہاں سے زندہ واپس آنے کا تصور بھی نہیں تھا۔
جب 1957 ءمیں جنگ آزادی کی یاد میں انڈیا اور پاکستان میں سو سالہ تقریبات ہوئی تھیں تو ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔ برطانیہ کوجنگ آزادی کے قتل عام پر نہ سہی لیکن کالے پانی کے مظالم پربرصغیر کے لوگوں سے ضرور معافی مانگنی چاہئے۔کہا جاتا ہے کہ کالے پانی کا انچارج جی پی واکر قیدیوں کے ساتھ تقریباً وہی سلوک کرتا تھاجو مغربی تہذیب کے سپوتوں نے عراق کے سیولین قیدیوں کے ساتھ کیا۔اور وہاں کے قوانین بھی ویسے ہی تھے جیسے گوئن ٹا ناموبے کے ہیں۔1945ءمیں جب کالے پانی کی جیل کی عمارت کو منہدم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے تو آزادی کی متوالونے کہا "نہیں ظلم کی یہ علامت گرائی نہیں جا سکتی یہ تو آنے والی نسلوں کو اس بات کی خبر دے گی کہ ظلم کی کس تاریک رات سے گزر کر ہم یہاں تک آئے ہیں”۔
کالے پانی کے پس منظر میں کئی افسانے بھی لکھے گئے ہیں جن میں سلیم شہزاد کا افسانہ”سفید رنگت کا کالاپانی “بہت اہم ہے اس کی کہانی صرف اتنی ہے کہ ایک بہت بڑے عالم دین اور مجاہد کو جب کالے پانی کی سزا ہوئی تو جیلر نے دیکھا کہ تمام ترظلم و ستم کے باوجود اس شخص کے چہرے پر کسی طرح کے کوئی پریشانی نہیں دکھائی دیتی۔تو اس نے اس کے مذہبی جذبات سے کھیلنا شروع کیا اس کی داڑھی منڈوادی۔ مگر پھر بھی وہ مطمئن دکھائی دیتا تھا حالانکہ اسے کھانے کیلئے صرف ایک وقت گھاس ابال کر دی جاتی تھی اور بھاری آہنی زنجیریں پہنا کر اس سے دن بھر انتہائی سخت مشقت لیجاتی تھی۔جیلر نے ایک دن ایک فاحشہ عورت بلا کرنیم برہنہ حالت میں اس کے ساتھ اس کی کوٹھری میں بند کردیا مگر جب جیلر کو ایک سپاہی نے آکر بتایا کہ وہ عورت تو اس کوٹھری میں نماز پڑھ رہی ہے تو اسنے دونوں کو قتل کرادیا۔
انگریز حکومت ، خطرناک مجرموں کو ملک بدر کر کے ، ساری عمر کے لئے جزائر انڈیمان میں جیل (کالا پانی)بھیج دیتی تھی جہاں پینل کوڈ میں درج کئیے جانے والے 511 جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو قید کر دیا جاتا تھا۔ کالا پانی جیل کا عملہ انگریزکی خواہش کے مطابق مقرر کیا جاتا تھا ۔ ا ُس دور میںکچھ قیدی وہاں سے بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئے ، بہت سے بھاگنے کے لئے ہاتھ پاو ¿ں مار تے تھے۔اُس جیل میں ملاوٹ شدہ خوراک ، جھوٹ ، رشوت خوری ، قتل ، زنا بالجبر، اغوا ، حرام کاری ، حرام خوری سے لے کر زندہ اور مردہ انسانوں کی عزت لوٹنے کا جرم کرنے والے تقریباً اٹھارہ کروڑ مجرم ، ساری عمرکے لئے قیدکئے جاتے تھے تا کہ باقی انسانیت کو محفوظ رکھا جا سکے .
جزائر انڈمان نکو بار بحرِ ہند میں واقع ہیں۔ ہندوستان سے جزائر انڈمان نکو بار کی غیر معمولی دُوری کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انڈومان کی جنوبی سرحد سے ملیشیا صرف ایک سو کلومیٹر دور ہے ،اسی طرح اس کی سرحد کی لمبائی کا اندازہ صرف اس سے ہوتاہے کہ اس کی شمالی سرحد سے برما صرف ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ،انڈومان پوری دنیا میں اس اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ وسطی انڈومان میں تقریباً ساڑھے چھ سو مربع کلومیٹر کے جزیروں میں پتھروں اور فولاد کے زمانہ کے تہذیب وتمدن سے عاری وحشی قسم کے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ہمیشہ برہنہ رہتے ہیں ،پوری دنیامیں ان کی زبان کوئی نہیں سمجھ سکتا ،وہ مہذب انسانوں سے دور بھاگتے ہیں ،زندگی بھر جنگلوں سے باہر نہیں نکلتے ،ان کے سر گول ہیں اور آنکھیں باہر نکلی ہوئی،لیکن ان کے دانت نہایت چمکیلے وسفید اور بال گھنگریالے ہیں ،ان کی غذا کیڑے مکوڑے ، سمندری کیچوے اور جنگلی پھل ہیں،آج بھی وہ ماچس کے بجائے پتھر رگڑ کر آگ جلاتے ہیں ،ان کے مکانات اور رہن سہن کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت آدم کے زمانہ کے قرن اول کے لوگ ہیں ۔ زمانہ میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ یا زمین پر ہونے والے کسی بھی حادثہ کا نہ ان کو علم ہے نہ اس سے کوئی واسطہ ،حکومت کا کوئی قانون ان پر نافذ نہیں ہوتا، یہ لوگ شہری اور مہذب انسانوں سے وحشت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں یا پھر ان پر حملہ کرتے ہیں ،ان کے علاقوں کو حکومت نے محفوظ قرار دے کر اس کے آس پاس پہرہ بٹھا دیا ہے ،سرکاری اجازت کے بغیر کوئی وہاں نہیں جاسکتا،آج بھی ان وحشی انسانوں کی تعداد کا صحیح علم نہ حکومت کو ہے اور نہ کسی اور کو۔ انڈومان کے یہ جزائر یوں تو صدیوں سے آباد ہیں اور وہاں کے قریب سے ہمیشہ تجارتی وسیاحتی قافلے گزرتے رہے لیکن وہاں رک کر مستقل آباد ہونے کی ان وحشی انسانوں سے ڈر کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی پہلی دفعہ 1759 ء میں سبز قدم انگریز قیدیوں کی مستقل کالونی بنانے کے لیے اس کالونی پر وارد ہوئے تو یہاں کے غیرمہذب وحشیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اور ایک خوں ریز جنگ کے بعد یہاں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت فرنگی لشکری یہاں اپنے200قیدیوں کو لے کر اس زمین پر قابض ہونے آئے تھے۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کسی قیدی کو انڈمان بھیجنے کے لیے ”کالا پانی“ لفظ کا استعمال کیوں کیا جاتا تھا۔ ممکن ہے اس کا مطلب ”سمندر پار“ بھیجنا رہا ہو جو ہندوستان سے ہزاروں کوسوں دور واقع تھا، اور ہندوستانی محاورے میں طویل فاصلے کے لیے ”کالے کوس“ جیسے الفاظ پہلے ہی سے رائج تھے۔کالا پانی کی سزا ایسے باغیوں اور مجرموں کو دی جاتی تھی جنھیں سزاے موت کی بجاے عمر قید کی سزا دینی ہوتی تھی۔ لیکن بیسویں صدی کی ابتدا میں یہ سزا انھیں بھی دی جانے لگی جنھیں برطانوی نوآبادیاتی نظام اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا تھا۔ کالا پانی کو ایک طرح سے ملک بدر کی سزا سمجھا جا سکتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کے دور میں کبھی اس طرح کی سزا کسی ہندوستانی کو نہیں دی گئی، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندو دھرم کے لوگ سمندر پار جانے کو ”گناہِ عظیم “تصور کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ سمندر پار کرنے سے ان کا دھرم بھرشٹ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ذات کھو دیتے ہیں۔ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے ان کی اس فکر کا سیاسی طور پر احترام کیا اور کبھی کسی غیر مسلم کو براہِ سمندر ملک بدر کرنے کی سزا نہیں دی۔یہ روایت بلا شبہہ انگریزاپنے ساتھ لائے۔
کالا پانی کا نام سنتے ہی ذہن میں اس جیل خانے کا نقشہ ابھر آتا ہے کہ جہاں جو بھی ایک مرتبہ گیا وہ شاذ ہی زندہ واپس لوٹا بلکہ اس کی لاش کو بھی اپنے وطن کی مٹی نصیب نہ ہوئی۔ کرہ ارض پر یوں توکئی اور جیلیں بھی موجود ہیں امریکہ نے القاعدہ اور طالبان قیدیوں کیلئے گوانتاناموبے جیسی اذیت ناک جیل بنائی ہے مگر کالا پانی کی جیل اس سے بھی بدتر تھی۔ اس جیل میں قیدی اگر سخت جسمانی مشقت سے نہ مرتے تو ملیریا سے ضرور مر جاتے کیوں کہ جس جزیرے پر وہ بنائی گئی تھی وہاں ملیریا کی بیماری عام تھی اور اس کا علاج نہ ہونے کے برابر۔ جو قیدی خوش قسمتی سے1947میں آزادی ہند کے موقع پر وہاں سے رہا ہو کر واپس آئے ان کی زبانی اس قید خانے میں ان کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک کیا گیا تھا اس کی روداد سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
جب ہندوستان میں جنگ آزادی کی آگ بھی بھڑک اٹھی اور ہزاروں آزادی کے متوالوں کو گرفتار کیا گیا جن کو محفوظ جیلوں میں رکھنا مقصود تھا چناں چہ ان کو بطور سزا ان دلدلی جزیروں میں بھجوایا گیا اور ان کو جبری مشقت پر مجبور کرکے ان سے وہاں جیل کی تعمیر میں مزدوری کرائی ۔
اس جیل کی تعمیر1906ء میں سلطنتِ انگلشیہ کے باغیوں کو اذیت دینے کے لیے کی گئی تھی۔ چوں کہ اس جیل کی اندرونی ساخت سیل(کوٹھری) جیسے ہے ، اس لیے اس کا نام سیلولر جیل رکھا گیا۔ تعمیری لحاظ سے دیکھا جائے تو اس جیل کے درمیان میں ایک ٹاور بنا ہے، جس سے سات شاخیں پھوٹتی ہیں۔ یہاں سے قیدیوں کی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔یہاں ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے مجاہدینِ آزادی کو رکھا جاتا تھا، انھیں سخت اذیتیں دی جاتی تھیں جن میں چکی پیسنا ، تیل نکالنا، پتھر توڑنا، لکڑی کاٹنا، ایک ایک ہفتے تک ہتھکڑیاں باندھے کھڑے رہنا، تنہائی کے دن گزارنا، چار چار دن تک بھوکے رکھنا، دس دس دنوں تک کراس بار کی حالت میں رہنا وغیرہ شامل تھے۔ تیل نکالنے کی مل میں کام کرنا تو اور بھی درد ناک تھا۔ عموماً یہاں سانس لینا بہت دشوار ہوتا تھا ، زبان سوکھ جاتی تھی، دماغ سن ہو جاتے تھے، ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ کئی قیدیوں کی اس میں جان بھی جا چکی تھی۔ ان کا جرم محض یہ تھا کہ انھوں نے مادرِ وطن سے محبت کی تھی اور اسے انگریزوں کے پنجہِ استبداد سے نجات دلانا چاہتے تھے۔30دسمبر 1943ء کو یہاں نیتا جی سباش چندر بوس نے ہندوستانی پرچم لہرایا، دوسری جنگ عظیم کے سبب اب یہاں قیدیوں کو لانا ممکن نہیں رہ گیاتھا اس لیے برطانوی حکومت نے اس قید خانے کا استعمال ترک کر دیا۔1947 میں آزادیِ ہند کے ساتھ ہی یہ جیل ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی جزائر انڈیماں اورنکور بار پر اب انڈیا کا کنڑول ہے اور کالا پانی جیل میں اب ایک پانچ سو بستروں کا ہسپتال اور میوزیم قائم ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔