بگڑا ہوا نظامِ چمن دیکھتا ہوں میں
ہر سُو ہجومِ رنج و محن دیکھتا ہوں میں
ایسی چمن میں فتنہ و شر کی لگی ہے آگ
آتش بجانِ سرو وسمن دیکھتا ہوں میں
باقی کہاں ہے اب گل و لالہ میں رنگ و بو
بے رنگ و آگ روئے چمن دیکھتا ہوں میں
گل ہے اگر اُداس تو بے کل ہے شاخِ گل
مجروح پنکھڑی کا بدن دیکھتا ہوں میں
اہلِ ہوس نے مل کے قیامت ہے دوستو!
لُوٹی ہے آبروئے چمن ،دیکھتا ہوں میں
منصور تو نہیں ہوں پہ منصور کی طرح
نظارہ ہائے دار ورسن دیکھتا ہوں میں
تاریکیوں کے شہر میں بسملؔ نہ جانے کب
پھوٹے گی روشنی کی کرن دیکھتا ہوں میں
سلطان محمود بسملؔ
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔