بھٹ شاہ، ہالہ کی کاشی گری،ٹوپی اور اجرک – حیدر آباد کی ڈائری
سی ایم ایچ حیدر آباد میں ڈاکٹر محمد علی پشاوری سائیکاٹرسٹ تھے ۔ان کے آفس میں گیا تو وہاں مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی تصویر آویزاں دیکھی ۔اس سے پتہ چلا کہ پشاوری صاحب احمدی ہیں۔ 1998 میں ان سے سی ایم ایچ گوجرانوالہ میں دوبارہ ملاقات ہوئی ۔
پبلک آفس میں اس تصویر کی اجازت نہیں ۔افسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت اس کی طرف توجہ نہیں گئی ۔ سرحد کے احمدی اکابر کے بارے میں کتاب نیٹ پر پڑھی تھی۔اس کتاب کے مطابق محمد علی صاحب کا خاندان مسلمان تھا۔1974کی ختم نبوت تحریک کے دوران ڈاکٹر صاحب احمدی بن گئے ۔ اس وقت یہ خیبر میڈیکل کالج کے طالب علم تھے ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب احمدی مسلمان ہو رہے تھے۔اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی۔۔اللہ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اٹک کالج کے اکنامکس کے پروفیسر نییر صاحب پرنسپل اسماعیل صاحب کی کوشش سے مع فیملی مسلمان ہو گئے ۔ 2006 میں محمد علی صاحب نے آرمی سے ریٹائر ہو کر کبیر میڈیکل کالج پشاور جائن کر لیا تھا۔
دادو کے میجر نور انیستھٹسٹ تھے ۔ان کے بیٹے کا نام عثمان سن کر بڑی خوشی ہوئی ۔عثمان میرا فیورٹ نام ہے۔اگر کوئی اپنے بچے کا نام رکھنے کے مشورہ کرے تو یہی نام تجویز کرتا ہوں ۔ عثمان رفیق و عثمان شاہ ایبٹ آباد، عثمان بن قربان گنڈاکس ، عثمان باری و عثمان جعفر ملہووالہ اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔
ہالہ کے ڈاکٹر گل حسین کے ساتھ ہالہ اور بھٹ شاہ کی سیر کا پروگرام بنایا ۔ ان دنوں ہفتہ واری چھٹی جمعے کے دن ہوتی تھی ۔ بذریعہ بس ہالہ پہنچا ڈاکٹر گل کو ساتھ لے کر بھٹ شاہ پہنچ گئے ۔پہلے میوزیم دیکھا پھر مزار کمپلیکس وزٹ کیا۔ جنوب کی طرف سے داخل ہوئے تو سب سے پہلے تبرّا پلیٹ فارم آیا۔ ڈاکٹر گل صاحب جعفری تھے اس لئے اس سٹرکچر کے بارے میں تفصیلات/ بات سے پرہیز کیا۔ اس کے بعد ایک چھوٹا سا قبرستان آیا۔ قبروں کے کتبوں سے پتہ چلا کہ لوگ دور دور سے یہاں دفن ہونے کی وصیت کرتے ہیں ۔اس سے آگے بڑھے تو ایک کنگ سائز اشتہار پر نظر پڑی۔اس کا عنوان تھا ‘میں شیعہ کیوں ہوا’،گل صاحب کے احترام میں اس کو نظر انداز کرکے آگے بڑھے اور حضرت شاہ لطیف صاحب کے مزار کی زیارت کی ۔
سب سے آخر میں مسجد آئی۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔
بنده پروردگارم امت احمدﷺ نبی
دوست دار چار یارم تابع اولاد علیؑ
مذہب حنفیہ دارم ملت حضرت خلیلؑ
خاکپائے غوث اعظم زیر سایہ ہر ولی
تسلی ہوئی کہ کم از کم نماز پڑھنے پڑھانے کی ذمہ داری احناف کے سپرد ہے۔
حضرت شاہ لطیف صاحب کے اشعار بطور تبرک پیش خدمت ہیں ۔
ماٹھون سب نہ سھٹا
پکھی سب نہ ھنجھ
کنھن کنھن ماٹھون منجھ
اچی بوء بھار جی
سب لوگ سوہنے ( اچھے) نہیں ہوتے
سب پکھی ( پرندے) راج ہنس نہیں ہوتے
کسی کسی مانو (man- انسان )سے
بہار کی خوشبو آتی (اچھے) ہے
بھٹ شاہ سے ہالہ پہنچے تو جمعے کی اذانیں ہو رہی تھیں ۔گل صاحب مجھے اہل سنت کی مسجد میں چھوڑ آئے اور فرمایا نماز کے بعد میں لینے آجاؤں گا۔ نماز کے بعد روٹی شوٹی کھائی ککڑ کھانے کی شان دوبالا کر رہا تھا۔
پھر گل صاحب ہمیں کاشی کاری ملتانی ٹائلوں کے کارخانے( کمہار خانے) لے گئے ۔چھوٹی سی جگہ ایک جادونگری لگ رہی تھی۔
1۔ مٹی سے بنی ہوٹی ٹائلیں
2پھر ان پر پنسل سے ڈیزائن
3اس کے بعد ڈیزائن یا خطاطی میں مقامی ( لوکل) رنگ بھرنا
4 ۔ رنگ شدہ ٹائلوں کے اوپر مقامی سینڈ سٹون کرش کر کے اس کا لیپ(paste)
5۔ آخری مرحلہ
ان ڈور آوی(indoor…kiln) میں ٹائلوں کو پکانا۔ ٹائلیں پکنے پر رنگ پکا ہو جاتا ہے ۔ سینڈ سٹون پگھل کر شیشہ بن جاتا ہے اور ٹائلوں کے نقش و نگارِ کو اس طرح کور (cover) کرتا ہے کہ صدیوں ٹائلیں خراب نہ ہوتیں۔ کاشی گروں نے بتایا کہ جرمنی سے ایک میڈم آئی تھیں انہوں نے کچھ نئی ٹیکنیک بتائی تھی۔ ہالہ کی نیلی اور زمردی رنگ کی ٹائلیں مشہور ہیں۔
کار گاہ کاشی گری سے نکلے تو مخدوم سرور نوح کی بارگاہ میں حاضری دی اور مزار کے پاس والی مسجد میں عصر پڑھی۔ سندھ میں مریدوں کے گروہ کو جماعت کہتے ہیں ۔
حر جماعت کے سربراہ پیر پگاره ہیں ۔ سروری جماعت کے سربراہ ہالہ کے مخدوم ہیں۔
سندھی ٹوپی اجرک اور کلہاڑی صوبہ سندھ کی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔اندورن سندھ آپ کو ایسے ہزاروں جوان ملیں گے جو ٹوپی اجحرک پہنے اور ہاتھ میں کلہاڑی پکڑے ’ ویلے مصروف’ کی طرح ادھر اُدھر گھومتے دکھائی دیں گے۔
مزدور اور لکڑ ہارے کلہاڑی سے درخت کاٹتے اور لکڑیاں چیرتے ہیں۔ ان کی کلہاڑی کا دستہ (Wajja وجہ ) ساده ہوتا ہے ۔ پھل کا curve بھی کم ہوتا ہے .اٹک میں مضبوطی کی وجہ جنگلی زیتون ( کوا) کی لکڑی دستے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
قتل کلہاڑی یا ٹریڈیشنل سندھی کلہاڑی کا دستہ رنگین ہوتا ہے۔اس کے پھل کا curve نصف دائرے سے زیادہ ہوتا ہے۔ملہووالا میں قتل کلہاڑی ایک آدھ دفعہ دیکھی ہے ۔
سندھی نیشنلسٹ پارٹی کے جھنڈے پر سندھی کلہاڑی بنی ہوئی ہے ۔ حیدر آباد کے آرمی ڈویزن کا فارمیشن سائن بھی سندھی کلہاڑی ہے۔ 1989 میں میجر جنرل جاوید اشرف قاضی حیدر آباد کے جی او سی تھے۔ ان سے ایک دفعہ ملاقات ہوئی تو میں نے اپنا تعارف وجاہت اشرف قاضی صاحب کے شاگرد کی حیثیت سے کرایا۔خوش ہوئے اور فرمانے لگے۔الحمدللہ اس حوالے سے ہر سٹیشن پر کسی نہ کسی سے ملاقات ہو جاتی ہے۔
سندھ رجمنٹ کا سنٹرحیدر آباد میں ہے اور اس رجمنٹ کا نشان ڈبل کلہاڑی ہے۔ 1989 میں کیپٹن شعیب صاحب سنٹر کے ایجوکیشن افسر تھے ۔
خاکسار تحریک والے خاکی شلوار قمیص پہنتے اور ان کے ہاتھ میں بیلچہ ہوتا۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی جماعت کا نام مجلس احرار تھا۔ یہ لوگ سرخ قمیص پہنتے تھے اور ان کے ہاتھ میں کلہاڑی ہوتی تھی
غلام شاہ کلہوڑو سے 1971 میں معاشرتی علوم کی کتاب نے کروایا ۔ ملہووالا کے چاچا غلام شاہ دکاندار کو بچہ پارٹی نے آف دی ریکارڈ غلام شاہ کلہوڑو کا نام دے دیا ۔غلام شاہ کلہوڑو 1750 میں سندھ کے حکمران تھے ۔ ان کا مزار حیدر آباد جیل کے پاس ہے۔اس کی زیارت کی۔کلہوڑو خاندان کا کلہاڑی سے کوئی تعلق نہیں ۔حیدر آباد کا کچه قلعہ اور پکا قلعہ ۔دونوں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے بنوائے ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔