تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
غزل گو کو غزل تخلیق کرتے وقت جو کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔ اُس وقت کا رنگ بھی نرالا ہوتا ہے ۔ جب مختلف ذرائع سے غزل عوام الناس تک پہنچتی ہے تو ان کی حالت بھی دیدنی ہوتی ہے ۔ غزل کے سرور میں خود کو محسوس کرتے ہیں ۔ صنفِ غزل بھی دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ سے آئی ہے ۔ شروع سے اُردو فارسی اب بہت ساری زبانوں میں کہی جانے والی غزل ایک مقبول اور مضبوط ترین صنفِ سخن ہے ۔ جہاں اس کے اندر عشق و حُسن کی باتوں کو پایا جاتا تھا اب اُس میں محدود نہیں رہی اِس میں بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے ۔ جس میں فلسفیانہ، حکیمانہ، اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور سماجی مضامین پائے جاتے ہیں ۔
ضلع بھکر کے چند معروف اُردو غزل گو شعرا کا تذکرہ مقصود ہے ۔
محمد اشرف کمال :۔
آپ محمد اشرف کمال ، منڈی ٹاؤن بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ غزل کو غزل کہنے کا جوہر اِن کے اندر فطری طور پر پایا جاتا ہے ۔ غزل کی روح قاری کی روح تک کو سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ بھکر کی پیاسی تھل دھرتی کے سپوت نے انٹرنیشنل شہرت حاصل کی ہے ۔ ان کی پہلی غزل نے ہی شہرت کی طرف سفر کیا امریکہ سے معروف شاعر اور گلوکار اشرف گل نے جس کی کمپوزیشن بھی کی اور اسے گایا بھی ۔ اسی غزل سے ایک شعر جو زبان زدِ عام ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈھونڈتے ہو وفا زمانے میں
تم بھی اشرف کمال کرتے ہو
55 کتب کے مصنف ہیں ۔ جو مختلف موضوعات پر لکھی گئی ہیں ۔ جو غزل کے حوالے سے مجموعے ہیں ان کے نام کچھ اس طرح سے ہیں ۔
” پھول راستے ،، 1992ء
” دھوپ کا شہر ،، 1995ء
”تجھے دیکھا ہے جب سے ،، 2007ء
”کوئی تیرے جیسا نہیں ،، 2010ء
”خوابوں سے بھری آنکھیں ،، 2012ء
” طاقچہ ،، 2017ء
” ساتھ چلو تو اچھا ہوگا ،، 2018ء
محمد اشرف کمال کی غزل گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر آغا سہیل (ایف سی کالج لاہور) کہتے ہیں محمد اشرف کمال کے کلام کے بالا ستعیاب مطالعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نہ تو وہ روایت پرست شاعر ہیں اور نہ پرانی لیکھ پر چلنے والوں کی نقالی کرتے ہیں۔ صنفِ غزل میں خاص طور پر یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ شاعر بہت جلد اپنی متخیلہ کو کسی بھی پسندیدہ خیال پرست اور روایتی غزل گو کے راستے پر ڈال دیتا ہے اور مکھی پہ مکھی بیٹھانا ، مروجہ بحور ، قوافی و ردیف کی زمینوں میں شعر کہنے کو فخر و مباہات سمجھتا رہتا ہے ۔ اس صورت میں متخیلہ کی تخلیقی صلاحیت پس پشت رہ جاتی ہے اور محض کریفٹ مین شپ Craftsmanshipآگے آگے چلنے لگتی ہے۔ محمد اشرف کمال نے روایتی ڈگر چھوڑ کر اور خیال پرستی سے ہٹ کر اپنی متخیلہ کو محض جذبے، خیال اور وجدان سے استعارے کے راستے پر نہیں لگایا بلکہ تفکر و تعقل کو راہ دی اور اپنے ذہنی افق کو وسیع سے وسیع تر بنایا جس میں معاشرتی شعور، تاریخی تجزیہ عمرانی محرکات و عوامل اپنا صحت مند کردار کر رہے ہیں، جو شاعر جان جو کھوں میں ڈال کر سماجی شعور سے کام لیتے ہیں وہی صحیح معنیٰ میں بیدار سے بھی قائم ہے ہیں اور ان کا رابطہ اپنے حال سے بھی قائم ہے اور مستقبل سے بھی استوار ہے کریفٹ مین شپ اور ڈکشن ایسے شاعروں کے لئے محض ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اصل چیز وہ شعور و آگہی ہے جسے ترقی پسند مکتبہ فکر سماجی شعور اور عصری حسیت قرار دیتا ہے ۔ اس بنا پر اشرف کمال اپنے آج بھی ترجمان شاعر ہیں اور اپنے کل سے بھی ان کا خطاب ہے ۔ ان کے لہجے میں جو اجتماع اور مزاحمت ہے ۔ وہی ان کا اسلوب ہے جس میں دلکشی اور جاذبیت بھی اور دعوتِ فکر و نظر بھی ۔ پھول راستے(ص 10)
آخر میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
میں انقلاب پسندوں کی قبیل سے ہوں
جو حق یہ ڈٹ گیا اس لشکرِ قلیل سے ہوں
تجھے دیکھا ہے جب سے زندگی اچھی لگی ہے
میں زندہ رہنے کا پھر سے ارادہ کر رہا ہوں
کسی طرح جلتا ہے مفلس کا چراغ
تم میری بستی میں آکر دیکھنا
جھوٹ کہتے ہیں مرے بارے ترے شہر کے لوگ
کہ ہوا بدلے گی تو میں بھی بدل جاؤں گا
اقبال حسین :۔
اقبال حسین طلہٰ منزل نزد شمالی ریلوے سگنل ، بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ عصرِ حاضر میں غزل گوئی کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے منفرد لب و لہجہ کے ساتھ ساتھ غزل کو بامِ عروج پر پہنچایا ۔ ان کی غزل میں اساتذہ کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو کہ نئے غزل گو شعرا کے لئے مفید ثابت ہوا ہے ۔ خیالات کی بلندی ، روانی ، سلاست و بلاغت کا خیال بھی بھرپور رکھا گیا ہے ۔ اِن کی غزل کو اگر شہرہِ آفاق کہوں تو لفظ کم پڑتا ہے ۔ اِس سے کہیں آگے کی نوید سناتے ہیں ۔ جو قاری کو حشر تک اور خلد کی وہ سدا بہاریں جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گی ایسا پیغام مل رہا ہے ۔
اقبال حسین کے غزلیات کے مجموعوں نے بھرپور شہرت پائی ہے۔ اِس کے بعد انہوں نے اپنی ہی حیات میں اِتمام کے نام سے تین کلیاتِ غزلیات شائع کر کے اہلِ ادب پر بڑا احسان کیا ہے ۔
اِتمام کلیات غزلیات جلد اول ستمبر 2016ء
اِتمام کلیات غزلیات جلد دوم جولائی 2018ء
اِتمام کلیاتِ سلام جلد سوم 2020ء
اور جلد چہارم کلیاتِ غزلیات غیر مطبوعہ ہے ۔
ڈاکٹر ناصر نئیر (اورینٹل کالج ، پنجاب یونیورسٹی لاہور) اقبال حسین کی غزل گوئی کے حوالے سے کہتے ہیں ۔ اقبال حسین کا تعلق اگرچہ پنجاب کے ایک دور افتادہ شہر بھکر سے ہے مگر انھوں نے اپنی شاعری کو مقامی مشاعرہ پسند شعراء کی روش کی نذر نہیں ہونے دیا۔۔۔۔۔۔ ان کی غزل معاصر اردو غزل کے سیاق میں پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ حق یہ ہے کہ اقبال حسین کی غزل معاصر اردو غزل گوؤں میں اپنی لفظیات ، اسلوب ، موضوعات کی پیش کش کے ماہرانہ انداز کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہے ۔ وہ ایک طرف غزل کے کلاسیکی رکھ رکھاؤ کلاسیکی شعریات کی روشنی میں لفظ کے بر محل استعمال اور لفظوں کی رعایتوں سے حسن کاری کا خیال اور سلیقہ رکھتے ہیں تو دوسری طرف معاصر عہد کی حسیت کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں ۔ سب سے اہم بات ان دونوں میں توازن رکھنا ہے۔ اقبال حسین کا احساس حسن اس توازن کو ممکن بنانا ہے ۔ باقی جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے ۔ وہ آج کے ہیں اور ہمارے اکثر غزل گوؤں کے یہاں مشترک ہیں ۔ اقبال حسین کی غزل کا اسلوب ہی جو نو کلاسیکی کہا جاسکتا ہے۔ انھیں دوسروں سے الگ پہچان دیتا ہے ۔
اِتمام کلیات (غزلیات)جلد دوم فرنٹ فلیپ آخر میں ایک غزل ملاحظہ فرمائیں ۔
مجھے مٹانے تجاوز کے باب تک مت جا
اداسیاں ہی دیا کر عذاب تک مت جا
برسنے پر ہی بہر طور کر اُسے مائل
اٹھا کے پیاسی زمیں کو سحاب تک مت جا
میں کم نہیں ہوں تری بات کے سمجھنے کو
تو اہلِ بزم کی خاطر خطاب تک مت جا
ابھی ہے دیر طلب انتہا محبت کی
تو جلد بازی میں لُبِ لُباب تک مت جا
عداوتوں کو حقیقت تلک ہی رکھ محدود
مجھے نہ ملنے کی خواہش میں خواب تک مت جا
جاوید عباس جاوید :۔
مکان نمبر A۔ 13 محلہ سردار بخش بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ جاوید عباس جاوید کا اُردو شعری مجموعہ ” راستے آساں ہوئے ،، 2022ء کو اُردو سخن پاکستان ، چوک اعظم، لیہ نے بڑے خوبصورت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ 160 صفحات پر مشتمل مجموعہ میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں اِس میں شامل کلام ملکِ پاکستان کے معروف و مشہور رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے ۔ جس کی ڈٹیل کلام کے نیچے درج ہے اور یہی غزلیات مشاعروں میں بھی پیش کر چکے ہیں۔ جس سے عوام الناس میں بہت مقبول ہوئی ہیں ۔ جاوید عباس جاوید نظم اور غزل دونوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزل گوئی کی بات کریں تو فقط لطف و سرور تک ہی محدود نہیں رہتی اس کی غزل سے فکر کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔ اُس سے سیراب ہونا ہر ایک قاری کے نصیب میں نہیں کیوں کہ اس کی وسعت و گہرائی میں پہنچنا قدرے مشکل ہے۔ ان کی غزل گوئی میں بھرپور شعریت کے ساتھ ساتھ تصوف ایک خاص نظریات کے ساتھ اپنی آب و تاب کے ساتھ جھلک رہا ہے۔ جس سے مفید ہونا ضروری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر گُل عباس اعوان (پرنسپل گورنمنٹ کالج آف کامرس۔ لیہ)کہتے ہیں جاوید عباس جاوید ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے پختہ گو شاعر ہیں۔ ان کے خیالات، مشاہدات اور تاثرات جب شاعری میں ڈھلتے ہیں تو ایک پُر لطف اور قابلِ تعریف کیفیت قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ انسانی وجود اور معاشرے سے متعلقہ اہم باتیں، نو بہ نو الفاظ، قوافی اور بحر کے لباس میں ملبوس ہو کر اپنی اہمیت سے آگاہ کر رہی ہیں ۔ اللّٰہ واحد کی ذات کے ادراک کے بعد ان کا دوسرا موضوع انسانیت ہے ۔ وہ عظمتِ آدم اور انسانی مقام نیز معاشرتی قدروں کے زوال پر بھی غمزدہ نظر آتے ہیں۔ جاوید صاحب کی شاعری میں منظر نگاری اور لفظی تصویر کشی کا عنصر بہ خوبی پہچانا جاتا ہے اور ان کے مشاہدے کی گہرائی کا اندازہ ان کے اشعار کے پس و پیش پر غور کرنے سے ہوتا ہے۔ ان کے کلام کو پڑھ کر ہر قسم کے فنی و فکری تجربات ذہن میں آتے ہیں۔ ” راستے آساں ہوئے،، کی اشاعت سے اس خطے کی اُردو شاعری کے ذخیرہ میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ ان کو اس تخلیق کی تکمیل پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
کرتے ہیں بے خودی میں ہر روز خود کلامی
جاوید شاعری میں نادانیاں بہت ہیں
” راستے آساں ہوئے ،، (ص 8)
آخر میں مختلف غزلیات سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
اپنے ہونے پر بہت نازاں ہوئے
ہم بھی اپنے دور کے انساں ہوئے
سُنا ہے لوگ بستے ہیں پہاڑوں اور جھیلوں پر
ہمیں تو چین ملتا ہے فقط بھکر کے ٹیلوں پر
انساں کی زہر ناک قساوت کو دیکھ کر
سانپوں کی جستجو میں سپیرے نہیں رہے
زندگانی کا سفر دشوار تھا
بندگی سے راستے آساں ہوئے
نذیر احمد نذیر ڈھالہ خیلوی :۔
استادالشعرا سئیں نذیر احمد نذیر ڈھالہ خیلوی محلہ سردار بخش بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ ماں بولی سرائیکی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔ اور ملک گیر شہرت کے حامل ہیں ۔ قومی زبان اُردو میں آپ نے چند غزلیں کہیں ہیں ۔ اُن کو بھرپور پذیرائی ملی ہے ۔ آپ کے اشعار کی یہ خوبی ہے کہ محفلِ مشاعرہ میں تمام حاضرین اپنے اندر کی آواز سمجھتے ہیں اور داد دیئے بغیر رہ نہیں سکتے ۔آپ کی غزلیات میں جدید تکنیک کے ساتھ تلمیحات کا عکس بھی غزل کی چاشنی کو دو بالا کرتا ہے ۔
آخر میں چند اشعار بطور نمونہ ملا حظہ فرمائیں۔
خشک ہوکے گر نہ جائیں ٹوٹ کر پلکیں کہیں
آنسوؤں سے کچھ تو پلکوں کو بھگو نا چاہیے
محِب کو مسکراہٹ دے یا آنسو
مزاجِ یار پہ رگھا گیا ہے
آئیں گے تو فاصلے مِٹ پائیں گے
راستے میں کب کہاں دیوار ہے
اکثر تنہا رہتا ہوں
خود سے باتیں کرتا ہوں
ہے درد ناک واقعہ تاریخ میں رقم
بھائی کو بھائی کے بازو قلم ملے
سعید عاصم :۔
بھکر شہر سے 20 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے مشرقی کنارے واقع پنجاب کے سرحدی قصبہ داجل کا رہائشی سعید عاصم کی پُروقار و بلند و بالا خیالات کی حامل غزلیں منزل کی طرف کامیابی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ ان کی غزل میں جوش و جذبے پائے جاتے ہیں جو حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ قاری کے دل ودماغ کو روشن رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ ان کی غزل میں جینے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ ایسے راہ نما اشعار غزلیات کی صورت میں لوگوں کو گوش گزار کرنا یہ بھی ایک قسم کی نیکی ہے ۔
ان کی غزلیات کے دو مجموعے زیورِ طباعت سے مزید ہیں ۔
”محبت زخم دیتی ہے،، 2021 ء اِس کے چھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور دوسرا مجموعہ ” اظہار،، 2020ء اِس کے بھی چھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر سعید عاصم کی غزل گوئی کے حوالے سے ارشد حسین کہتے ہیں۔
ڈاکٹر سعید عاصم نے انتہائی خوبصورت نظمیں بھی کہی ہیں۔ تاہم اُس کی پہچان غزل ہی ہے ۔ اُردو غزلیں شاعری کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ولی دکنی سے لے کر اب تک اُردو غزل کہنے والے شعرا اگر لاکھوں میں نہیں ہوں گے تو ان کی تعداد ہزاروں میں ضرور ہوگی اور اُردو غزلیات کی تعداد تو بلاشبہ لاکھوں میں ہی ہو گی ایسی گھمسان کی صورتِ حال میں اپنی پہچان بنانا اور نام ور بن جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اکثر شعرا کا تعارف کراتے ہوئے نام ور کا لقب لگا دیا جاتا ہے چاہے اُن کا کوئی ایک شعر بھی کسی شخص کو یاد نہ ہو تاہم نام وری کا اعزاز سعید عاصم کو ضرور حاصل ہے کیوں کہ اُس کے لاتعداد اشعار زبان زدِ عام ہیں اور سعید عاصم کے اشعار کے حفاظ میں قارئینِ ادب کے علاوہ دورِ حاضر کے مجھ جیسے شعرا بھی شامل ہیں۔” اظہار،، ص 23
ان کی بہت ساری غزلیں جو شہرت کی بلندیوں پر پہنچی ہیں اور ہر ایک مشاعرہ میں حاضرین نے فرمائشیں بھی کرتے ہیں۔ ان کی مشہور و معروف غزلیات میں سے ایک غزل ملاحظہ فرمائیں ۔
ہر طرف سُن کے یہ اعلان کہ میں زندہ ہوں
میرے دشمن ہیں پریشان کہ میں زندہ ہوں
اے مرے دوست میں زندہ تھا مگر پھیل گئی
یہ خبر جنگ کے دوران کہ میں زندہ ہوں
اب کسی اور تعارف کی ضرورت ہی نہیں
اب یہی ہے مری پہچان کہ میں زندہ ہوں
موت سے قبل یہ بیٹے کا پیام آیا تھا
آپ دے دیجیے تاوان کہ میں زندہ ہوں
حاکمِ وقت کو علم کہ زندہ ہے یہاں
میری صورت میں اک انسان کہ زندہ ہوں
کل میں زندہ تھا تو دنیا نے مری قدر نہ کی
آج کہتی ہے یہ نادان کہ میں زندہ ہوں
کاش لے جائے کوئی شخص یہ پیغام سعید
مصر سے جانبِ کنعان کہ میں زندہ ہوں
نجف علی شاہ بخاری :۔
نجف علی شاہ بخاری محلہ سادات، سردار بخش روڈ بھکر شہر کے رہائشی ہیں۔ اِن کی نثر اور شاعری کی بہت ساری کتب منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ انھوں نے اپنی حیات میں ” شجرہ نسب،، کے نام سے کلیات کو شائع کرواچکے ہیں۔ کلیات میں چار شاعری مجموعے شامل کئے گئے ہیں۔ جن کے نام درجِ ذیل ہیں۔
” اشکوں میں رعنائی،،
”صحرا میں اذان،،
” برف میں لپٹی آگ،،
” اسمِ اعظم پڑھ لیا کرتا ہوں میں،،
جس میں صنفِ سخن نظم، قطعات ، فردیات اور غزل ۔ ان کے کئی ایڈیشن کلیات سے پہلے شائع ہوچکے ہیں۔۔ نجف علی شاہ بخاری کا منفرد لب و لہجہ قاری و سامع کو اپنی طرف کھینچ کر منزل کا پتہ دیتا ہے۔ جس سے اُمید کی کِرن لاحاصل سے حاصل کا یقین ہو جاتا ہے ۔ ایسی غزل گوئی درد مندوں کا سہارے جیسا درجہ رکھتی ہے ۔ جس سے ایک اُمید کی دنیا قائم ہوتی ہے۔ثمینہ گُل(اُردو یپارٹمنٹ یونیورسٹی آف سرگودھا) اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہے۔ نجف علی شاہ بخاری کی شاعری بہت سارے رنگوں سے مزین ہے وہ مٹھاس، چاشنی، رنگ اور امنگ کے خمیر میں گوندھ کر محبت کے پیکر تراشے چلے جاتے ہیں۔ اُن محبتوں میں ہجر و وصال کے درد میں گھل کر اپنی کیفیات یوں بیان کرتے ہیں:۔
مجھ سے چپ چاپ بچھڑ جاؤ بچھڑ نے والے
مجھ سے رخصت کے مناظر نہیں دیکھے جاتے
”شجرہ نسب،، کلیات ( ص 11)
آخر میں نمونہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
میں ہوں بھکر کے ریگزاروں میں
اور تو وادیوں کی رانی ہے
تیری غزل سے نجف بخاری لگتا ہے
تیرا دل بھی درد سے پارہ پارہ ہے
دشتِ اُمید سے کوئی راہگزر پھوٹے گی
رات گزری تو نجف اُجلی سحر پھوٹے گی
مجھ سے کچے جھونپڑے یہ کررہے ہیں پھر سوال
مقبرے کیوں بن رہے ہیں کوٹھوں کے رو
انیل چوہان :۔
منڈی ٹاؤن بھکر شہر میں رہائش پذیر ہیں ۔ پختہ غزل گوئی میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں ۔ ان کی غزل میں فکری عفت اور جمالیاتی پہلو اُن کو دوسرے شعرا سے ممتاز کرتے ہیں ۔ انسان جوں جوں کتاب پڑھتا ہے اس میں کائنات سے محبت بڑھتی جاتی ہے کلام میں مضمون آفرینی بھی ان کو دوسروں سے جدا کرتی ہے۔ انیل چوھان ہماری دھرتی کا جھومر ہیں یہی میری مٹی کا افتخار ہے۔
ان کا نظم اور غزلیات پر مشتمل شاعری مجموعہ ” محبت اِک نشہ ہے،، پبلشر سانجھ لاہور نے دسمبر 2009ء کو شائع کیا ہے جیسا کہ مجموعہ کا نام ہے ویسے ہی نظم و غزل رومانویت سے مزین ہے ساتھ میں محبت کی تلخ حقیقتیں اور تھل کی وسعت، تھل کی محبت اور تھل کی محرومیوں کے بارے میں بھی جھلک پائی جاتی ہے۔ ان کے شعری مجموعہ ” محبت اِک نشہ ہے،، پر
معروف کالم نگار ، شاعر عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں کہ غزل کل کی طرح آج بھی شعراء کی محبوب صنفِ سخن ہے۔ صنفِ شعری کے ساتھ ساتھ غزل ہماری تہذیبی و ثقافتی روایت کی آئینہ دار بھی ہے۔ برِ صغیر پاک و ہند میں شاعری اور قاری پیدائشی طور پر ردیف و قافیہ کے صوتی آہنگ سے مزاج آشنا ہوتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا راز بھی یہی ہے۔ غزل کا یہی مثبت پہلو ہے صنف کی فراوانی ہی ارزاں بنائی ہے لیکن وہی شاعر کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ غزل نہ صرف جن کے مزاج کا حصہ ہو بل کہ طویل ریاضت سے وہ ردیف قافیہ کی بندش اور روایتی مضمون آفرینی کے چُنگل سے نکل کر دل بات کہنے کہنے کی قدرت رکھنا ہو۔ انیل چوھان کا شمار بھی ایسے شعرا میں ہوتا ہے۔ غزل جس کے مزاج کا حصہ ہے اور دل کی بات کہنے کا ہنر جانتا ہے ۔ اُس نے اس صنف کے چیلنج کو خوش دلی سے قبول کیا اور اس میں دسترس حاصل کی ہے۔ جدید لہجے میں روایتی دلکشی سے بھرپور اس کی غزلیں تخلیقی اُپج کی آئینہ دار ہیں۔ اُس کے ہاں تغزل بھی ہے اور مضمون آفرینی بھی انیل نظم آزاد بھی لکھی ہے غزل کے ساتھ نظم پر یکساں قدرت رکھنا اُس کی نمایاں صفت ہے اور دونوں میدانوں میں اُس کے فن کے جوہر کھلتے نظر آتے ہیں۔ میں اُسے شعری مجموعے کی اشاعت پر دلی مبارک باد دیتا ہوں ۔
معروف ناول نگار اور شاعرہ بشریٰ رحمٰن نے کہا کہ محبت اک نشہ ہی نہیں محبت ایک الوہی طاقت بھی ہے۔محبت کی ان گنت صوتیں ہیں۔ اورہردل میں اس کی آرزو پنے ہی انداز میں موجزن رہتی ہے۔محبت کے اس نشے میں جب آگہی کاکرب ، نایافت کادرد اور انسانی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ کاملال شامل ہوجاتاہے، توشاعری دوآتشہ ہوجاتی ہے
اس دوآتشی کاگلابی رنگ انیل چوہان کی شاعری میں جابجا ملتاہے۔اس کی شاعری میں شدت احساس اوروحدت تفکر بھی ہے، عصری گورکھ دھندے اورزمینی حقائق اس کوخیال آفرینی کی ایک نئی لذت عطاء کرتے ہیں وہ اپنی زمین کے آس پاس رہ کر سوندھی مٹی کی خوشبو کو اپنی مٹھی میں بھر کر لکھتا ہے ۔ ان شاموں کا رنگ جوکسی تصورسے سنہری ہوجاتی ہیں ان صبحوں کا اجالا جنہیں ہرروز امید آکر جگاتی ہے اس کے ذہن میں ایک الاؤسلگتاہے۔وہ نگاروطن کاچہرہ لہولہان نہیں دیکھ سکتا،وہ خودکش حملوں میں اشرف المخلوقات کی دھجیاں اڑتی نہیں دیکھ سکتا وہ خواب دیکھتا ہے جب اس دنیا سے افراط وتفریط زرختم ہوگی۔جب مساوات کی چاندنی ،ناامیتاز رنگ ونسل تقسیم کی جائے گی جب محبت کانشہ آدمی کوآدمی سے محبت کرنے پااکسائے گا جب نفرتوں کاگرہن چھٹ جائیگا۔ انیل چوہان کی شاعری ایک دل زندہ کی شاعری ہے موتیوں سے جڑی ہے اورادراک کادوشالا اوڑھے کھڑی ہے اپنی شاعری کے ذریعے وہ محبت کی پنیری لگارہا ہے میری دعاہے یہ پنیری تناور درختوں کی صورت میں ٹھنڈامیٹھا سایہ بن کر ابھرے
معروف شاعر اورڈرامہ نگاراصغر ندیم سید نے انیل چوہان کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ انیل چوہان کی شاعری نے چونکا دیا، انیل چوہان کی شاعری تازہ احساس میں رچی بسی ہے اور دوسری طرف یہ شاعری تکنیکی اورفنی اعتبار سے بھی بہت پختہ ہے۔اسلوبیاتی تنوع تخلیقی مشق کی گواہی دیتا ہے۔انیل چوہان یوں اچانک اتنی اوریجنل سطح کی شاعری کے ساتھ Emergeنہیںہوا یقیناً اس نے یہ منزل بڑی تپسیا کے بعد حاصل کی ہوگی۔انیل چوہان آج کی Sensibilityکے ساتھ غزل لکھ رہا ہے۔اب تک کی شعری روایت اس کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔انیل چوہان نے کچھ تو آج کے انسانی آشوب کے کرب کو محسوس کیا ہے اور کچھ روایت سے اپنے لئے حوصلہ حاصل کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں آج کے شاعر کواپنی Groomingکیلئے دنیا کی دوسری زبانوں کے بڑے شاعروں کوپڑھنا چاہیئے ۔اب انیل چوہان کے چند دل کوچھُو لینے والے اشعار ملاحظہ کریں۔
*
ایک ذرہ میں سمٹ کر رہ گئی سب کائنات
آنکھ کے کشکول میں قُلزم کئی رکھے گئے
ڈوبنے والے سے ساحل کے مکیں تھے بے خبر
اس کی چیخوں نے ہلا ڈالے مگر کہسار تک
اِک اچانک تیر سے جب فاختہ کھائل ہوئی
پھر فضا میں چار سُو خستہ پروں کا رقص تھا
آیا ہوں اپنے بدن پر دھوپ کو اوڑھے ہوئے
بانجھ صحرا میں نہیں تھی، شاخِ سایہ دار تک
محمد افضل راشد :۔
محمد افضل راشد حبیب ٹاؤن دریاخان روڈ بھکر شہر کے رہائشی ہیں۔ نیا رنگ و ڈھنگ کے اشعار تخلیق کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کی روشنی بانٹنے کا جذبہ ان کی غزل گوئی میں بے ساختہ پن کے ساتھ موجود ہے۔ جس سے قاری کو جینے کی نئی امنگ ملتی ہے۔
محمد افضل راشد کا اُردو شعری مجموعہ ” ساعتِ ہجر،، کو اُردو سخن چوک اعظم، لیہ نے 2015ء کو شائع کیا ہے۔ جس کے صفحات 128 ہیں۔ ان کی غزل گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر محمد اسلم چھینہ (شعبہء اردو گورنمنٹ گریجویٹ کالج، پتوکی) کہتے ہیں محمد افضل راشد ارود شاعری کی ایک توانا آواز ہیں۔ مگر اُن کی غزلیں نظموں پر بھاری ہیں ۔ اُن کی سب سے بڑی عطا یہ ہے کہ اُنھوں نے غزل کی روایتی مضامین کو آفاقیت سے مملو کیا ہے۔ نتیجتاً اُن کی شاعری مقامی نہیں رہی۔ وہ ایک خطہ یا علاقہ سے بڑھ کر پوری انسانیت کی ڈوبتی اُبھرتی خواہشات اور مچلتے جذبات کی ترجمان ہے۔ اُس میں وہ ساری صورتیں موجود ہیں جو اکیسویں صدی کے انسان کی بن سکتی ہیں۔ پس یہ بات کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ”ساعتِ ہجر،، روز مرہ جذبات و احساسات سے لے کر زندگی کے گمبھیر آلام و مسائل تک ہر چیز سے عبارت ہے، جس کی آمد اردو شاعری میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ اِس بات کو افضل راشد ہی کے ایک شعر سے یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ :
شہر سارا کھڑا ہے چشم براہ
آپ کے انتظار میں کچھ تو ہے
فرنٹ فلیپ
آخر میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
ہمارا المیہ ناگفتنی ہے
ہمارے خواب مر تے جارہے ہیں
ہمیں ہے نیند میں چلنے کی عادت
زمانہ مت ہمیں بیدار سمجھے
بے خطر دار تک چلے آئے
جو درِ یار تک چلے آئے
دھوپ کا سلسلہ بتاتا ہے
ایک ہی پہر ہے کہانی میں
وہ شاید پانیوں کا دیوتا تھا
مری آنکھوں میں دریا بھر گیا ہے
شاہد بخاری :۔
شاہد بخاری ، بھکر شہر میں قیام پذیر ہیں ۔ ان کا مجموعہ غزل ” خواہشوں کے خیموں میں،، 2009ء کو سانجھ پلیکیشنرز لاہور نے شائع کیا ہے صفحات 128 پر مشتمل ہے۔ شاہد بخاری کی غزل گوئی کی ندرتِ خیال سے آراستہ ہے جس میں جذبات کی فراوانی سہل ممتنع کے ساتھ اس طرح بہتی ہے کہ جیسے کوئی ندی سبزہ زاروں میں مچل کر چلتی ہو شاہد بخاری کے کلام سے ظاہر ہے قاری جب ان کا شعر پڑھتا ہے تو ان کے شعر دل و روح میں اتر جاتے ہیں۔ فطرت نے انہیں یہ وصف عطا کیا ہے ان کے اشعار میں خیالات کے چھلکتے جام آپ کو بھی سرور بخشیں گے۔ پہلے یہ رائے ملاحظہ کیجئے۔
شاہد بخاری کی غزل گوئی کے حوالے سے افتخار عارف کہتے ہیں۔ شاہد بخاری کا مجموعہ کلام ”خواہشوں کے خیموں میں،، پڑھتا جاتا ہوں اور داد دیتا جاتا ہوں کہ یہ نوجوان تخلیقِ کا پاکستان کے بڑے شہروں سے دُور بھکر میں بیٹھا ایسی خوبصورت غزل کہہ رہا ہے جس میں تازہ کاری کے سارے قرینے اپنے کلاسیکی اسالیب سے ہم رنگ ہر پڑھنے والوں کو زنجیر کئے رکھتے ہیں۔ شاہد بخاری نے اپنے تخلیقی سر چشموں سے نئی زمینوں کو سیراب و شاداب بھی کیا ہے اور ریاضت کے ساتھ اِس میں نئے موسموں کے خوش رنگ پھول بھی کھلائے ہیں۔ تازہ اور رواں دواں زمینوں میں کہے ہوئے مصرعے آہنگِ تازہ کے سارے مطالبوں اور تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور صورت صدا کی ایسی فضاء قائم کرتے ہیں جو شاہد بخاری کی نسل میں کم کم شعراء کے ہاں دیکھنے میں آتی ہے۔ غزلِ جدید کے ایوانِ حرف و ہنر میں شاہد بخاری کی کتاب ٫٫ خواہشوں کے خیموں میں،، لائق تحسین ٹھہرے گی ۔ مجھ کو اس کا پورا یقین ہے ۔
” خواہشوں کے خیموں میں،، بیک ٹائٹل
شاہد بخاری کی غزلیات سے چند منتخب اشعار کا لطف لیجئے :۔
جب قدم موجہِ جذبات میں رکھا جائے
ڈور کا ایک سرا ہاتھ میں رکھا جائے
وہ میرا عکس تھا شاید تمھاری آنکھوں میں
وگرنہ میں تو کسی جھیل میں رہا ہی نہیں
تضاد عشق میں پہنچا ہوں اس نتیجے پر
تمھارا ہجر ہے تمام مگر وصالِ دھمال
درد سے میری توجہ کو ہٹانے کے لئے
مجھ کو مصروف سوالات میں رکھا جائے
ارشد حسین :۔
ارشد حسین محلہ چاہ چمنی جنوبی بھکر شہر کے رہنے والے ہیں ارشد حسین غزل گوئی میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ طرح مصرح پر کہی گئی غزلیات نے غزل گوئی مقابلہ میں انعامات جیتے ہیں۔ پہلا انعام پوزیشن دوسری 20 نومبر 1995ء کو گورنمنٹ ڈگری کالج ، چشتیاں ضلع بہاول نگر سے حاصل کیا۔ دوسرا انعام پہلی پوزیشن 20 ستمبر 1995ء گورنمنٹ کالج، سرگودھا اور تیسرا انعام تیسری پوزیشن فروری 1996ء کو گورنمنٹ کالج، گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے حاصل کیا ۔
ان کا نظمیات و غزلیات پر مشتمل مجموعہ ٫٫ چلو اب مان بھی جاؤ ،، پہلا ایڈیشن فروری 2001 ء کو تگ وتاز پبلشرز، لاہور نے شائع کیا۔ 2006ء کو دوسرا ایڈیشن علم دوست پبلیکشنز، لاہور نے شائع کیا تیسرا ایڈیشن 2009ء ۔ چوتھا 2013ء اور پانچواں ایڈیشن 2018ء کو شائع ہوا۔ ان کا دوسرا مجموعہ نظمیات و غزلیات پر مشتمل ”مجھے دھڑکنوں میں بحال کر،، پہلا ایڈیشن 2013ء اور دوسرا ایڈیشن 2018ء کو شائع ہوا۔
عباس تابش (لاہور) ان کی غزل گوئی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ارشد حسین کی غزل۔۔۔۔۔۔۔ دریائے غمِ دل، کی وہ موج ہے جو اس کے بدن کے کنارے توڑ کر باہر نکل جانا چاہتی ہے لیکن وہ مضبوط حوصلے کے مالک ارشد حسین کی ذات کے اندر ہی طوفان برپا کر کے اس کے دل میں گہری اتر جاتی ہے۔ بظاہر وہ کہیں کہیں سماجی جبر کی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ بنیادی طور پر اپنی ذات کے حجرے میں رہتا ہے ۔ اس خودنگری نے اُسے ایک ایسا شخصی رچاؤ دیا ہے جو اچھی شاعری کی شرطِ اول ہے۔ وہ محبت کی دھونی رمائے ہجر کی لے میں گنگنا رہا ہے، وہ سادہ لوحی کی بکل مارے جب کلام کرتا ہے تواندر کی بلا خیزی جو کنارِ ذات کو توڑ نہیں سکتی لفظوں کے ذریعے پھوٹ بہتی ہے۔ ارشد حسین نے جس میٹھے لہجے کی بنیاد رکھی ہے وہ اس عمر کے شعرا میں کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔ خدا کرے کہ وہ اپنے اضطراب کو اسی طرح سنھبالے رکھے اور اس کا اظہار اس کی ذات کی بجائے اس کے کلام میں ہوتا رہے۔ ارشد حسین کا تعلق بھکر سے ہے ۔ بھکر جس تہذیبی رچاؤ کا نمائندہ شہر ہے وہ بھی ارشد کی شاعری میں جھلکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شدید اندرونی دباؤ کے باوجود کہیں تلخ نہیں ہوتا بلکہ مثبت انداز میں عہدِ نو کے جبر پر تبصرہ کرتا چلا جاتا ہے ۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ جبر ہے جسے وہ خوشی سے سہہ رہا ہے۔
”چلو اب مان بھی جاؤ،،(ص 20)
آخر میں ایک غزل کا کیف اٹھائے۔
غزل
دریائے غمِ دل میں یہ طوفان سا کیوں ہے
اب اس کی ہر موج میں ہیجان سا کیوں ہے
کہتے ہیں جسے شہر کے سب لوگ مسیحا
وہ شخص مرے درد سے انجان سا کیوں ہے
اظہار کو گر لفظ میسر ہی نہیں تو
سینے میں یہ جذبات کا طوفان سا کیوں ہے
بے عدل ہی ہوتی ہے یہاں رزق کی تقسیم
اس ملک میں انصاف کا فقدان سا کیوں ہے
جو جاتے ہوئے رشتے سھبی توڑ گیا تھا
اُس شخص کے لوٹ آنے کا امکان سا کیوں ہے
مٹی کا بنا ہے تو گُھل کیوں نہیں جاتا
پتھر کا صنم ہے تو وہ انسان سا کیوں ہے
کل ترک تعلق کا جسے شوق تھا ارشد
اب مجھ سے بچھڑ کر وہ پیشمان سا کیوں ہے
الطاف اشعر بخاری :۔
الطاف اشعر بخاری بھکر شہر سے ہیں ۔غزل گوئی میں کمال مہارت رکھتے ہیں ۔ کرب کی تازگی ، یقین کی دنیا ، سماجی فکر ، پاکیزہ سوچ اور ان کی غزل گوئی میں حق گوئی کی آواز دور دور تک پہنچ رہی ہے۔ ان کے لئے ہی نہیں ہمارے بھکر کے لئے بڑے اعزاز کی بات یہ کہ ان کی غزل کو رفاہ انٹر نیشنل یونی ورسٹی فیصل آباد کے کورس میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی یونی ورسٹی نے ان کی اُردو ایک اور غزل کو بھی پنجابی میں ترجمہ کر کے کورس کا حصہ بن لیا گیا ہے اس غزل کا کیفِ غزل آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
درد کو راستہ دیا میں نے
کل تمھارا گلہ کیا میں نے
وہ اندھیرے کا خوف تھا کل شب
خط تمھارا جلا دیا میں نے
زندگی رنگ چھوڑ جاتی ہے
میں تو کہتا ہوں سچ کہا میں نے
لفظ بھی مجھ سے خوف کھاتے ہیں
کیسا مقتل سجا لیا میں نے
خود ہی اپنا علاج ڈھونڈ لیا
خود ہی تجویز کی سزا میں نے
جو مرے اختیار میں بھی نہ تھا
وہ قدم بھی اٹھا لیا میں نے
ڈاکٹر خالد اسراں :۔
منڈی ٹاؤن بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ ڈاکٹر خالد اسراں پیشہ کے حوالے سے سرجن ہیں۔ وہ غریب لوگوں کے آپریشن کرنے کا فریضہ ادا کرنے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں ۔ اُن کی دُکھ تکلیف کو قریب سے دیکھ کر مستقل طور علاج کرتے ہیں ۔ احساسِ دل رکھنے والے خوب صورت انسان ہیں ۔ صاحبِ ثروت ہیں ۔ سادہ طبیعت سادگی پسند ہیں ۔ غریب اور امیر کے ساتھ ایک جیسی ہمدردی رکھتے ہیں ۔ ان کا غزلیات پر مشتمل مجموعہ ” شہرِ افلاس،، اُردو سخن ڈاٹ کام، پاکستان چوک اعظم، لیہ نے جنوری 2021ء کو بڑے خوبصورت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ صفحات 152 پر مشتمل ہے۔ آخر میں چند نظمیں بھی شامل ہیں ۔ اِن کی غزل گوئی میں جان اور غربتِ جہان کا عکس بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اِن کی غزل گوئی کے حوالے سے ناصر ملک لکھتے ہیں۔
زیرِ مطالعہ کتاب ” شہرِ افلاس ،، ڈاکٹر خالد اسراں کے داخلی و خارجی اضطراب، سماجی مشاہدات، معاشرتی شکت وریخت اور کم طاقتی کے باوجود بڑی جنگ لڑتے ہوئے جذبات کی شاعری پر مبنی ہے جس کا ہر ایک شعر خواہ وہ کوئی بڑا یا انوکھا پیغام نہ رکھتا ہو، صداقت اور فطری بے چینی کا مظہر ہے۔ وہ براہِ راست گفتگو کے قائل ہیں۔ استعارہ اور تلمیح کا استعمال ناگزیر صورت میں کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں بے ساختہ پن اور روانی موجود ہے وہاں فنی محاسن و معائب پر توجہ کم اور انسانی رویوں کی شکست وریخت پر زیادہ مرکوز ہونے کی وجہ سے تکراری صورت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ نچلے طبقے کے انسانوں، مزدوروں اور کمزوروں کی وکالت میں کہیں سخت لہجہ بھی اختیار کر جاتے ہیں اور کہیں ان کے اندازِ اظہار میں برہمی اور تشویش بھی ملتی ہے۔ ان کی شاعری پر کوئی بھی رائے قائم کر لی جائے، یہ کہے بغیر چارہ نہ ہو گا کہ وہ سچے جذبوں کے حقیقی رویہ رکھنے والے شاعر ہیں اور کمزوروں پر فرعونوں کو ظلم کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ امید ہے احبابِ سخن کو یہ شعری کتاب پسند آئے گی۔ بقول حضرت داغ دہلوی:۔
خط ان کا بہت خوب عبارت بہت اچھی
اللّٰہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ!
” شہرِ افلاس،، (ص 12)
آخر میں چند مختلف غزلیات سے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
ہاں سمجھنا ہے ابھی لوگوں کو
تم مجھے ظلم ابھی سہنے دو
سنائی حشر کی جب داستان واظ نے
غریب بولے کیا اب بھی عذاب باقی ہے
کس طرح بہلتے ہیں فاقوں کے مارے بچے
تم کچی بستیوں سے صاحب گزر کے دیکھو
ہے خامشی کوئی آواز ظلم پر نہیں اُٹھتی
امیرِ شہر نے لوگوں کو بے زبان رکھا ہے
پوچھا جائے کبھی اس کھیت کے مالک سے بھی
یہ بتا رزق غریبوں کا کدھر جاتا ہے
عمران راہب :۔
عمران راہب نوتک کے رہائشی ہیں ۔ ان کی غزل گوئی اُمید کی کِرن اور مستقبل کی اُمیدوں کو بہار کرتی ہوئی اپنی طرف کھینچتی ہے جس وجہ سے عمران راہب کا غزل گوئی کے حوالے سے مستقبل ہی روشن نہیں بل کہ حال میں بھی کمال درجہ پر غزل کہنے میں ایک خاص مقام کا حامل نظر آتا ہے۔ فکر و شعور پر دستک دیتے ہوئے یہ اشعار قاری کی سامعتوں میں اترتے جاتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ کیجئے :۔
دل مستقل اداس ہے نغمہ سرا نہیں
کیکر کی شاخ پر کوئی بھی گھونسلہ نہیں
یوں تو ترا فراق ہے دُنیاوی دُکھ مگر
صبر و رضا کے واسطے خاکِ شفا چکھی
اپنے بازو نہ جدا کرنا مرے شانوں سے
بہتے پانی سے کنارے نہیں چھینے جاتے
خدا کرے، نہ کبھی دھوپ ہو حویلی میں
خدا کرے کہ شجر سایہ دار رہ جائیں
رامش پیرزادہ :۔
رامش پیرزادہ محلہ عمران آباد بہل کے رہنے والے ہیں۔ روحانیت اور ہمدردی سے ان کا تعلق بہت گہرا ہے جو کہ ان کی غزل گوئی میں روحانیت، انسانیت، رومانویت اور اچھوتے خیالات کی بہاریں بدرجہ اُتم پائی جاتی ہیں۔ بطور نمونہ تین اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
دل کی دھک دھک پہ کبھی غور تو کرنا رامش
یہ اذیت کی کیفیت کا بیاں لگتا ہے
قسم ہے محبت کی شاعری نہ کرتے
مگر کیا کریں روز مر نا پڑا ہے
اے مسیحا میری نبضیں نہ ٹٹولو آکر
میں مسرت سے اذیت سے نکل آیا ہوں
عامر شاہ :۔
عامر شاہ چونی شمالی بھکر کے رہنے والے ہیں۔ عامر شاہ کی غزل گوئی میں جذبات واحساسات فقط خیالات کی بلندی تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بل کہ حقیقت کے قریب تر دیکھائی دیتے ہیں۔ جس کی خاص وجہ ان کی غزلیں عامر شاہ کی بالیدگی ء فکر میں اوجِ مسلسل ہے اور وہ دل کی اتھاہ گہرائی غزل سرائی کرتے ہیں۔پھر اثر کا رنگ غالب آنا فطری عمل ہے ۔ اس معاملے میں بھرپور کردار ادا کرنے میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں ۔ چند اشعار جو کہ غزلوں سے لے گئے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے :۔
خواہ مخواہ دل میں عجب روگ سا پالا ہوا ہے
خود کو خود ہم نے پریشانی میں ڈالا ہوا ہے
کتنی آنکھوں کا لہو خاک ہوا تب جاکر
شہرِ تاریک کی گلیوں میں اجالا ہوا ہے
ذرہ سی چھاؤں بھیجو دید کی اب
نظر کا پھول مرجھا نے لگا ہے
کئی دنوں سے بوجھ تھا مرے دلِ تباہ پر
ذرہ سی آنکھ نم ہوئی تو سب غبار چھٹ گیا
وہی دن خوب آسانی کے دن ہیں
محبت میں جو نادانی کے دن ہیں
کاظم حسین کاظم :۔
کاظم حسین کاظم بستی آرئیانوالی دریا خان شہر (بھکر) کے رہائشی ہیں۔ اِن کی غزل گوئی کا جائزہ لیا جائے تو صاحبِ استاد ہیں ۔ جن کے اسلوبِ فن میں قدیم و جدید کا امتزاج ہے۔ روایت پرستی ہے فن میں جدت مگر محبت و مودت کا عنصر نمایاں ہے۔ ضلع بھکر کے چند شعراء جو غزل گوئی سے خوب واقف ہیں کہنہ مشق ہیں۔ ان میں کاظم حسین کاظم کا نام صنفِ اول میں ہے۔ بحور، ردیف اور قافیہ سے اِس طرح آشنا کہ الفاظ منتظر ہیں کہ کہاں اور کیسے بُنت میں آجائیں یہ کاظم حسین کاظم کا ہی کمالِ فن ہے طرزِ اداء میں بے ساختگی بیان میں وضاحت، بلاغت، خلوص، محبت مودت قاری کو اپنا گرویدہ اور سامع کو واہ، واہ پر مجبور کر دیتی ہے۔ لکھتے تو سبھی ہیں۔ خلوصِ دل سے لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور یہی بات ہے جو کسی کے بس کی بات نہیں، موضوعات کی کمی نہیں اِن کے ہاں نت نئے تجربات ہیں۔ عام سے موضوع کو خاص زاویہ نگاہ اور وجدان کے کمال سے وہ غزل تخلیق کرتے ہیں۔ جو دلوں پہ نقش ہو جاتی ہے۔
خالق داد چھینہ کاظم حسین کاظم کی غزل گوئی کے حوالے سے کہتے ہیں۔ بہت سے شعرا قادر الکلام ہوتے ہیں اور بیدار شعور بھی کاظم ان میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ جو سیماب صفت تخلیقی مزاج رکھتے ہیں۔ نت نئے موضوع اور ندرت سے کلام میں تخیل کا مربوط اظہار ان کا ہی خاصہ ہے۔ لکھتے ہیں بے تھکان اور لاجواب لکھتے ہیں۔ غزل گوئی میں جدت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ متروک قافیوں کو بھی جلا دیتے بعض مختصر مگر گہری بات یوں بے ساختہ کہ جاتے۔۔۔ کہ سامع و قاری سحر زدہ ہو جاتا ہے۔ ماضی کو حال کے ساتھ مربوط کر کے مستقبل میں بیان کرنے کا ہنر کاظم پر مودت اہلِ بیت علیہ السّلام کی بنا پر خاص عطا ہے۔ خالق ہے الفاظ کا چناؤ بُنت اور مراتب انشاء میں ہم عصروں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ شعر، ڈوہڑہ، قطعہ، غزل، نظم، نوحہ، سلام، مرثیہ، قصیدہ ، منقبت الغرض تمام صنف میں مثالی تخلیق کرکے بھکر کی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔
فون پر لی گئی رائے۔
آخر میں غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
تختی قلم دوات سے پہلے کی بات ہے
یہ عشق کائنات سے پہلے کی بات ہے
سچ ہے کہ میں پیار کا منکر بنا رہا
ہاں ہاں یہ تیری ذات سے پہلے کی بات ہے
اب تو ترے غلط پہ بھی آمین کہہ دیا
انکار تیری بات سے پہلے کی بات ہے
بس بے سبب فرات پہ الزام آ گیا
یہ پیاس تو فرات سے پہلے کی بات ہے
شعیب صدیقی :۔
شعیب صدیقی کا تعلق تحصیل دریا خان (بھکر) کے گاؤں پنجگرائیں سے ہے۔ باقی صنفِ سخن کی نسبت اور غزل گوئی کی طرف زیادہ دھیان دے رہے ہیں۔ ان کی غزل کا ایک شعر ان کی پہچان بن گیا ہے۔ Tvچینل 92 نیوز اور بھی مختلف TV۔چینلز کے پروگراموں میں پڑھا جاتا ہے۔ ملک گیر شہرت اور پذیرائی حاصل کرنے والے شعر کے بارے میں اقبال حسین کہتے ہیں۔
دنیا کی ہر زبان کے ادب میں کچھ لائنیں مصرعے یا کچھ اشعار ایسے ہوتے ہیں جو تخلیق کار کے ساتھ ساتھ اُس ملک کے ادب و شعر کی شناخت اور اُس ملک کے باشندوں کے اجمتاعی لاشعور کا حصہ قرار پاتے ہیں۔ اردو میں بھی ایسے کچھ مصرعے یا اشعار موجود ہیں جو درج بالا خوبیوں کے حامل اور اِس زبان کا افتخار ہیں۔ شعیب صدیقی کا یہ شعر بھی انھی میں سے ایک ہے۔
تم میری تصویر بنا کر لائی ہو
یعنی میں دیوار سے لگنے والا ہوں
فون پر لی گئی رائے
آخر میں چند اشعار کا اور لطف اٹھائیں۔
یہاں پر خاندانی سلسلے ہیں
دوبٹا دے دیا پگڑی بچالی
پیڑ ہوں گے ہرے بھرے پھر سے
تو حوالے تو کر، پرندوں کے
میں تجھے بھولنے کی کوشش میں
سانس لینا بھی بھول جاتا ہوں
وہ سردار نہیں بن سکتا تھا اپنے بل بوتے پر
ورثے میں دستار ملی جس نے اس کو سردار کیا
ملک نعمان حیدر حامی :۔
ملک نعمان حیدر حامی، دریا خان کی بستی چاہ اسراں والا چک نمبر 18 ٹی، ڈی، اے کے رہائشی ہیں۔ ان کی غزل گوئی میں مستقل کے سہانے خوابوں کی نوید ملتی ہے۔ حالات کا رونا بھی دامن گیر ہے۔ جس سے نکلنے کی خواہش اِن کی غزل میں پائی جاتی ہے۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ ایسا نوجوان شاعر اشعار کے ذریعے نوجوان نسل کی نمائندگی کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اِن کہیں ہوئی کچھ غزلیں غزلِ مسلسل بھی ہیں۔
چند اشعار بطور نمونہ ملا حظہ فرمائیں۔
بیٹھا ہوں خواب کے مزار پر
لے کے میں حادثات کا رونا
اسے شاید غریبوں پر ذرا سا ترس آ جائے
گدائی کا لبادہ اوڑھ ہم شام و سحر نکلے
ہیں چوکھٹ تری کے ازل سے بھکاری
محبت کا کاسہ اٹھائے ہوئے ہیں
ایک دن مجھ سے بلبل نے روکر کہا
باغ میں کوئی نغمہ سرا ہی نہیں
دامن انصاری :۔
دامن انصاری کلور کوٹ شہر محلہ بلال مسجد کے رہنے والے ہیں۔ ان کی غزلیات میں بعض ایسے اشعار بھی ہیں جو انسان کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔ ان کی غزل گوئی کے حوالے سے نمونہ طور پر تین اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
میرے بچوں کے لئے آئیں کھلونے کس طرح
ہے بہت ہی جیب اور بازار تک کا فاصلہ
میں ماں تھی اسی واسطے اے شہر پر آشوب
اولاد کا غم گُھن کی طرح کھا گیا مجھ کو
ماں کی پھڑکتی نبض کی رفتار دیکھ کر
اِک بیٹا سسکیوں سے لپٹ کر نہ رو سکا
منظر انصاری :۔
منظر انصاری کلور کوٹ شہر کے رہائشی ہیں۔ ان کی غزل گوئی کے حوالے سے بات کریں تو ان کے تخیلات کی پرواز مشاہدات کو ساتھ لے کر سفر کرتی ہے۔ جس سے قاری یقین کی دنیا میں خود کو سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔
حالات کا جو سامنا کرتا نہیں کبھی
وہ شخص بے شعور ہے میرے حساب میں
روتی ہے شب کی اوٹ میں چھپ چھپ کے چاندنی
کرنوں کو تیرگی کا کفن کون دے گیا
وہ دیکھئے! کس طور سے چھائی نیکی
وہ دیکھئے! کس ڈھنگ سے جاتا ہے گناہ
غم چن لئے ہیں گر دل وحشی نے سینکڑوں
سوچوں گا میں اس میں بھی غم خوار کا نفع
عامر عباس :۔
عامر عباس کا تعلق تحصیل منکیرہ کے قصبہ حیدر آباد تھل سے ہے۔ ان کا نظمیات و غزلیات پر مستعمل مجموعہ ” دشتِ اُمید،، 2011ء کو پین گرافکس (پرائیویٹ) لمیٹڈ، اسلام آباد نے شایع کیا ہے۔ خوب صورت ڈبل ٹائٹل اور آرٹ پیپر پر مزین ہے جس میں خوب صورتی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ صفحات 142 ہیں ۔ عامر عباس کی نظم اور غزل میں تھل کی محبت، تھل کی گرمی، معاشرے کے دُکھ درد اور جو سب سے بڑھ کر ہے محور و مرکز ہے وہ رومانویت ہے۔ ان کا شعور پختہ اور انصاف طلب ہے۔ محبت کو محبت کے مقام پر قائم رکھنے کا قائل ہے۔ ان کی غزل گوئی میں پائی جانے والی خوبی قاری کو اپنے حصار میں لے کر انسانی قدر و منزلت کا پتہ دیتی ہے۔
نمونہ کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
اُس نے اِک بار مسکرانا تھا
ہم نے سب کچھ ہی بھول جانا تھا
اُداس رات کے آنچل میں رنگ بھر نے دو
مجھے حیات کے مقتل میں رقص کرنے دو
دیکھ کر میرے پاؤں کے چھالے
میری راہوں کا ہر نشاں رویا
وہ بے وفا تھا، ہرجائی تھا، فریبی تھا
یہ راز اپنے ہی دل سے ہمیں چھپانے تھے
یہ زباں گر حواس میں نہ تھی
تم نے ہونٹوں کو سی لیا ہوتا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |