بیوہ اور عقد ثانی
مصنفہ سدرہ منور
ایسی عورت جس کے شوہر کا انتقال ہو جائے عربی زبان میں اسے أرملة اور اردو زبان میں بیوہ کہتے ہیں۔عورت کے نام کے ساتھ یہ لفظ جڑتے ہی اس کےلئے ایک کھٹن اذیت ناک اور مشکل ترین سفر کا آغاز ہوتا ہے ۔اور اگر کوئی عورت کم عمری میں بیوہ ہو جائے تو یہ سفر مزید لمبا اور مشکل ہو جاتا ہے ۔ شوہر کے انتقال کے ساتھ ہی عورت پر مصائب کے جو پہاڑ ٹوٹتے ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ وراثت کی تقسیم ہوتا ہے ۔اکثر گھرانوں میں بیواؤں اور یتیم بچوں کو وراثت میں ان کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اور سسرالی رشتہ دار ان کا یہ حق غصب کر لیتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے مرد کو قوام بنایا اور عورت کی عزت کی حفاظت اور تمام تر معاشی ذمہ داریاں اللہ تعالی نے مرد کے سپرد کی ۔لہذا مرد عورت کے لیے ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے کہ جب وہ اس میں داخل ہو جاتی ہے تو وہ ہر طرح کے حملوں سے محفوظ ہو جاتی ہے ۔اور مرد ایک مضبوط محافظ کی طرح اس کی نگہبانی کرتا ہے ۔مگر جب یہ محافظ نہ رہے اور یہ قلعہ ڈھا جائے تو عورت ہر طرف سے حملوں کی زد میں آ جاتی ہے ۔
عورت چاہے مالی طور پر مضبوط ہو پڑھی لکھی ہو مگر اس کو ایک محافظ کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ ۔پھر ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے جو بیوہ کے اصل حقوق سے نا واقف ہو اور بیوہ کے ساتھ منفی رویہ ہندو تہذیب و تمدن کے تحت رکھیں ۔ ہندو مذہب میں اگر کوئی عورت بیوہ ہو جاتی تو اس کو شوہر کے ساتھ ہی جلا دیا جاتا جس کو ستی کی رسم کہا جاتا ۔ستی کی رسم کا خاتمہ انگریز دور میں ہوا جب گورنر جنرل ولیم بینٹنک نے دسمبر 1829 میں اس قبیح رسم پر پابندی عائد کی اس رسم پر پابندی عائد ہونے کے باوجود بھی بیوہ کے ساتھ ظلم ختم نہیں ہوا ہندوستان میں آج بھی بیوہ کے ساتھ بہت بدترین سلوک کیا جاتا ہے ۔اب اس کو شوہر کے ساتھ زندہ جلایا تو نہیں جاتا مگر اس کی زندگی کسی مردہ سے کم نہیں ۔ہندو مذہب میں بیوہ عورت کے نکاح کرنے کو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اگر کسی عورت کا شوہر انتقال کر جائے تو اس کا پھر دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے سر منڈوا کے سفید لباس میں ملبوس هو کے تاحیات گھر کے کسی ایک کونے میں پڑی رہے۔اس کے برعکس اسلام بیوہ عورت کو زندگی گزارنے کے ویسے ہی حقوق دیتا ہے جیسے کہ شوہر کی موجودگی میں اس کو حقوق حاصل تھے ۔قبل از اسلام عربوں میں بیوہ عورت کی مدت عدت ایک سال تھی ۔اور اس ایک سال میں اس کو کپڑے بدلنے نہانے یہاں تک کہ منہ دھونے کے لیے بھی پانی نہ دیا جاتا اور انتہائی غلیظ حالت میں جانوروں کی طرح اسے بند کر دیا جاتا۔اور اس کے بعد شوہر کی وراثت کے ساتھ اس کی بیویاں بھی تقسیم ہوتی ۔اسلام کے آنے کے بعد یہاں ہر پسے ہوئے اور مظلوم طبقے کو اس کے حقوق ملے انہی میں سے ایک بیوہ خواتین بھی تھی ۔اسلام میں بیوہ عورت کی عدت کی مدت چار ماہ 10 دن ہے اور اس مدت کو گزارنے کے بعد وہ اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہے وہ دنیا کے ہر کام میں اسی طرح سے حصہ لے سکتی ہے جیسے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں لیتی تھی اور اسی طرح سے بھرپور زندگی گزارنے کی حقدار ہے ۔عدت گزارنے کے بعد اسے نکاح کرنے کا پورا حق ہے .ہمارے معاشرے میں عموما عورت کے نکاح ثانی کو میعوب خیال کیا جاتا ہے ۔جبکہ اگر کوئی عورت کم عمری میں بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کے لیے دوسرا نکاح کرنا ضروری اور بہترین ہے تاکہ وہ بہت سے مسائل اور مشکلات سے بچ سکے ۔دین اسلام میں ہمیں اس کی بہت سی اور بہترین مثالیں ملتی ہیں اور آج بھی عرب معاشرے میں یہ چیز موجود ہے کہ بیوہ کو بغیر نکاح کے نہیں رہنے دیا جاتا ۔تاریخ اسلام پر نظر دوڑاتے ہیں اور دیکھتے ہیں سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا کو جنگ موتہ کے موقع پر وہ اپنے محبوب شوہر کے انتظار میں ہیں ۔بچے بھی باپ کے انتظار میں تیار بیٹھے ہیں ۔ اور پھر ان کو خبر ملی زندگی کہ ہم سفر ہجرت کے ساتھی سیدنا جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ جام شہادت نوش فرما چکے۔
اگر ایسا ہمارے معاشرے میں ہوتا تو عورت کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ۔مگر وہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تربیت یافتہ وسیع القلب لوگ تھے وہ کیسے ایک ناتواں عورت کو حالات اور جذبات کے حوالے کر کے تنہا چھوڑ سکتے تھے۔مدت عدت گزرنے کے بعد سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا کو انبیاء کے بعد سب سے افضل ترین انسان سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زوجیت میں قبول کیا ۔ ۔بچوں کو شفیق اور بہترین باپ مل گیا اور سیدہ اسماء کو اللہ تعالی نے بہترین شوہر عطا کیے ۔ اللہ تعالی نے آپ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک بیٹا عطا کیا ۔ کچھ عرصہ بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی انتقال ہو گیا ۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا دو دفعہ بیوہ ہو جانا عورت کی نحوست قرار دیا جاتا ہے۔ مگر وہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تربیت یافتہ غیور اور بہترین لوگ تھے ۔ اس دفعہ آگے بڑھے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدہ اسماء بنت عمیس کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہا سیدنا جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی تھے نہ صرف انہوں نے اپنے بھتیجوں کی کفالت اور پرورش کی بلکہ فرزند ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی اسی طرح سے پیار اور محبت سے پالا ۔ اب تاریخ اسلام کا اگلا ورق پلٹتے ہیں اور دیکھتے ہیں ایک اور خوش نصیب صحابیہ کو جس کے بارے میں مدینہ میں مشہور تھا کہ جس کو شہادت کی طلب ہو وہ ان سے نکاح کر لے ۔جن کو یہ سعادت ملی کہ ایک کے بعد ایک جلیل القدر صحابہ نے ان سے نکاح کیا ۔سیدہ عا تکہ رضی اللہ تعالی عنہا کا پہلا نکاح زید ؓابن الخطاب سے ہوا جنہوں نے جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش کیا ۔اس کے بعد آپ کا دوسرا نکاح عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا سے ہوا ۔حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دن فرط محبت میں سیدہ عاتکہؓ سے عہد لیا کہ اگر میں انتقال کر جاؤں تو میرے بعد تم دوبارہ نکاح نہیں کرو گی ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ شہید ہو گئے ۔ دور نبوی میں بیوہ عورت کو تنہا چھوڑنے کی مثال ناپید تھی ۔حضرت عمرؓ نے سیدہ عا تکہؓ کو پیغام نکاح بھیجا جو کہ حضرت عمرؓ کی چچا زاد بھی تھی ۔اور اب آپ حضرت عمر کی زوجیت میں آگئیں ۔ کچھ عرصہ بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی شہید ہو گئے ۔عدت پوری ہونے کے بعد عشرہ مبشرہ صحابہ میں سے ایک حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپ کو پیغام نکاح بھیجا اور آپ نے اس پیغام کو قبول فرمایا ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ بھی شہید ہو گئے ۔ اور اب آپ کے بارے میں عرب میں مشہور ہو گیا کہ جس کو شہادت کی تمنا ہو وہ عا تکہؓ سے نکاح کر لے اسی مناسبت سے آپ کو شہداء کی زوجہ بھی کہا جاتا ہے ۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد آپ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح میں آئیں ۔
اور اتفاق یہ کہ حسین رضی اللہ تعالی عنہ بھی واقعہ کربلا میں شہید ہوئے ۔مگر اس واقعہ سے قبل سیدہ عا تکہ رضی اللہ تعالی عنہا وفات پا چکی تھیں۔ اب ان مثالوں کا تقابل اگر ہم اپنے معاشرے سے کریں تو دیکھیے ہمیں کیسی تنگ نظری تو ہم پرستی اور نیچ سوچ ملتی ہے ۔ اسلام شوہر کے جانے کے بعد عورت کی زندگی کو ختم نہیں کرتا بلکہ عورت کو زندہ رہنے کا زندگی گزارنے کا بھرپور حق دیتا ہے ۔اس کو اپنی زندگی نئے سرے سے دوبارہ شروع کرنے اور اپنی زندگی کے معاملات کو سہولت کے ساتھ گزارنے کے لیے ایک مرد کی ضرورت ہے۔ اپنے بچوں کی کفالت اور سرپرستی کے لیے ایک مرد کا وجود لازم ہے ۔عورت اگر مالی طور پر مستحکم ہے اسے پھر بھی مرد کے سہارے کی ضرورت ہے اس کی مثال ہمارے سامنے ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ موجود ہیں جو کہ مکہ کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا پہلا نکاح نہیں تھا مال و دولت کی باوجود انہوں نے دوبارہ نکاح کرنا اور مرد کے سہارے کو ضروری سمجھا ۔کیونکہ یہ عورت کی فطری ضرورت ہے۔
اسلام عورت کے گھر بسانے کو ترجیح دیتا ہے نہ کہ گھر بٹھانے کو ۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں کتنی ہی بیوہ اور طلاق یافتہ عورتیں ابتر حالت میں نظر آئیں گی ۔ کیونکہ اس بات کوعورت کا وقار خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے دوسری شادی نہیں کی جب کہ یہ سراسر اس عورت کے ساتھ ظلم ہے ۔ دنیا کی غلیظ نظریں دوسری عورتوں کے طنز کہ نشتر بچوں کی تعلیم و تربیت اور مالی ذمہ داریوں کہ بوجھ تلے ایک ناتواں عورت کو دفن کر دینا, کہاں کا انصاف اور عقلمندی ہے۔ عورت کو دوبارہ نکاح کا حق اسلام نے دیا ہے۔ اسلامی خاندانی نظام میں عورت کو ایک فعال اور مضبوط رکن کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام عورت کے گھر بسانے کو اور اور خاندانی نظام کو مضبوط کرنے کا زبردست حامی ہے۔ نہ کہ اس کو مظلوم لاچار اور رحم کا مستحق بنانے کا ۔ ہم سب کو اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے معاشرے کے اس مظلوم طبقے کے لیے اپنے دلوں اور اپنی سوچ میں وسعت پیدا کر سکے ۔
Title Image by Ebrahim Amiri from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |