1975 تک ملھووالا میں جلیبی نہیں بنتی تھی ۔اس کے لئے جٹوں کو فتح جنگ میلے کا انتظار ہوتا وہاں جا کر تسلی سے رج رج کے جلیبی بلکہ بگ سائز جلیب کھاتے ۔ ملھووالا میں جلیبی سموسے بنانے کا رواج بشیر صاحب نے ڈالا۔ جمعرات کی بابا جی کی زیارت پر میٹھی روٹی تقسیم ہوتی تھی۔ایک دفعہ بابا اولیاء پنہارا روٹی تقسیم کر رہا تھا ،میں نے ناناجی کی تربیت کی وجہ سے خورده نہیں لیا۔ میرے خیال میں روٹی تقسیم کی زیادہ مناسب جگہ سکول کا گیٹ یا مسجد کا دروازہ تھا۔
1954 کا ذکر ہے کچھ خواتین اکٹھی تھیں۔شعر و شاعری شروع ہو گئی ۔خالہ عجائب نے یہ شعر پڑھا۔
پَچھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اَملَوکاں نی
میں دھی ۔۔۔تحصیلدارے نی
تے نونہں۔۔۔۔۔۔وڈیاں لو کاں نی
ان کی ساس بی بی خانم جی مشاعرے کی صدارت کر رہی تھیں ۔انہوں نے اس شعر سے خوش ہو کر اپنی بہو کو اوّل قرار دے دیا ۔
املوک۔(۔diospyros Lotus) کو Date-Plum بھی کہتے ہیں ۔اس میں کھجور اور آلو بخارہ دونوں کا ذائقہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو فارسی میں کہتے ہیں خرمالو۔ یعنی خرما کھجور پلس آلو بخارہ۔ افغانستان میں خوبانی کو پیلے رنگ کی وجہ سے زرد آلو کہتے ہیں۔
آڑو کو شفتالو کہتےہیں۔
بیر ملہووالا کا قومی فروٹ ہے۔ محکمہ زراعت کے فیلڈ افسر بابو اسرار اور ورکر حاجی غلام رسول صاحبان کی کوشش کے باوجود پیندو بیر.ملہووالا میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے ۔ چھوئی کا علاقہ ملہو والا سے 2 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا۔ یہ بیری کے درختوں کے لیے مشہور تھا، جولائی اگست میں ہم گروپس میں وہاں جا کر بیر کھاتے اور جمع کرکے گھرلاتے تھے، عبدالسلام درختوں پر چڑھ کر اس کے پھل جھاڑتا،جھونینا اور باقی پارٹی بیر چنتی آخر میں بیروں کی گنتی کی جاتی۔ عبدالسلام کو ہر بچہ آدھے بیر دیتا تھا۔ اس کا حصہ ساری پارٹی کے مشترکہ حصہ کے برابرہو جاتا تھا۔
چھوئی جا نے کے 2 رستے تھے۔ ہم شمالی پہاڑی رستے سے جاتے۔ پڑے سے ہو کر جانے والا رستہ ساھرہ ھموار لیکن لمبا تھا۔ عطا کے والد قاضی عبدالعزیز نے چھوئی میں ڈھوک بنائی ہوئی تھی چھوئی کے بعد ہم بعض اوقات مزید بیر اکھٹے کرنےکے لیے مغرب کی طرف کھدری جاتے تھے۔ رگڑی بیر وہ بیر ہے جو درخت پر سوکھ جاتے ہیں۔ ان کی جلد میں پھٹ جاتی۔ وہ میرے پسندیدہ بیر تھے۔ چر ی میں ایک بیر کا درخت ایسا تھا ۔وہاں اب حاجی زمرد کھوکھر کا گھر ہے۔جو بیر کھانے سے بچتے ان کو چھت پر سکھا لیا جاتا لیکن ان کا ذائقہ تازہ بیروں سے کم ہوتا۔
سلسلہ خوراکاں کادسواں مضمون
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔