جنید احمد نور
بہرائچ
زیر نظر مضمون راقم الحروف کی کتاب ’’ بہرائچ ایک تاریخی شہر‘‘ سے نقل ہے ۔مضمون کی شکل میں اس لئے شیئر کیا جارہا ہے احباب کئی ملک اور بیرون ملک سے بہرائچ کے تعارف میں مانگ ہو رہی ہے اس لئے آج یہ مضمون آپ سب کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ (جنید احمد نور)
دریائے گھاگھرا کے کنارے صوبہ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے125 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بہرائچ صوبہ و خطہ اودھ کا تاریخی ضلع اور شہر ہے۔ضلع بہرائچ کو اگر جغرافیائی نقط نظر سے دیکھا جائے تو یہ اتر پردیش کا ایک ایسا ضلع ہے جو نیپال کی سرحد پر اور ہمالیہ کی گود میں بسا ہوا ہے۔ویسے تو یہ ضلع ترقیاتی نقطئہ ونظر سے کافی پسماندہ ہے لیکن قدرتی دولت سے مالامال بھی ہے ۔بہرائچ کے جنگلات میں کترنیا گھاٹ پوری دنیا میں اپنا الگ مقام رکھتا ہے اتر پردیش کی اکھلیش حکومت نے اسے اپنی اکو ٹورازِم اسکیم میں نمایاں طور پر آگے رکھا اور یہاں بیرونی اور ملکی سیاحوں کے لیے کافی صہولیات کا انتظام بھی کیا۔
بہرائچ کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے ،یہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سابق ناظم ندوۃ العلما ء لکھنؤ کے ان الفاظ سے سمجھی جا سکتی ہیں جو انہوں نے17اور18؍ اپریل 1982ء میں منعقد ہوئی پانچویں صوبائی دینی تعلیمی کانفرنس بہرائچ میں خطبئہ صدارت میں کہی تھیں۔ جو یہاں نقل ہے:
’’انسانی فیصلہ کی طاقت اور کرامت کی ایسی مثالیں ہیں ،جن کا باور کرنا مشکل ہے،اس کی ایک شہادت آپ کا شہر(بہرائچ) پیش کرتا ہے کہ خدا کا ایک بندہ(سید سالار مسعود غازیؒ)غزنی افغانستان سے رفقاء کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ اس ملک میں جو ایک تحتی برا عظم ہے،داخل ہوتا ہے،وہ توحید کا پیغام پہنچانے اور انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھانے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ کر آئے ،عقل کا فیصلہ صریحاً اس کے خلاف تھا،کوئی آدمی صحیح الحواس ہونے کے ساتھ اس کی ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے لمبے چوڑے ملک میں ساتھیو ں کی اتنی تھوڑی تعداد کے ساتھ قدم رکھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب سفر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کی یہ آسانیاں نہیں تھیں،لیکن وہ اس دور دراز مقام سے منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہوا ،راستہ میں اپنے سفر کی نشانیاں چھوڑتا ہوا اس خطہ میں آکر اپنے کام کو ختم کر دیتا ہے یا اس سے اس کام کو ختم کر ا دیا جاتا ہے۔آج وہ یہاں آسود ہِ خاک ہے،ایک فر د کے فیصلہ کی طاقت کا یہ ایسا روشن ثبوت ہے جس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔‘‘(1)
محمد انصاراللہ اپنی تصنیف کے باب اضلاع مشرقی میں لکھتے ہیں:’’ از اہل اسلام اول کسے کہ در یں ملک فرماں رواشد حضرت سالار مسعودغازیؒ بودند کہ بعد فتح ایں ملک تادبارِ بنارس و جونپور خطبہ و سکہ بہ نام سلطان محمود غزنوی خالِ خود رواج داند۔‘‘(2)
ترجمہ اردو از سید ظفر احسن بہرائچی(سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ بہرائچ)
’’اہل اسلام میں سے اول جو شخص اس ملک کا فرمارواں ہوا وہ حضرت سالار مسعود غازیؒ تھے،جنہوں نے اس ملک کو فتح کے بعد بنارس اور جونپور تک کے شہروں میں اپنے ماموں سلطان محمود غزنوی کے نام کا خطبہ و سکہ رائج کیا۔‘‘
سالار مسعود غازیؒ کے والد سترکھ (بارہ بنکی) میں مقیم تھے۔ وہیں انھوں نے وفات پائی گو یا ان مفتوحہ علاقہ کا صدر مقام وہی تھا۔ان بزرگ کی وفات کے بعد بہرائچ تک کے مقامی باشندوں نے بغاوت کی۔اسی جنگ کی وجہ سے اس مقام کا نام بھڑائچ(یعنی خاص لڑائی ) پڑ گیا تھا۔
’توابع آں حضرت(سالار غازیؒ)کہ تا بنارس متفرق بودند یک یک بجاہائے خود شہید شدند دباز حکومت ایں دیاربہ راجہ ہائے منتقل شد۔ ‘(3)
ترجمہ اردو از سید ظفر احسن بہرائچی
’’حضرت سالارغازیؒ کے رفقاء جوکہ بنارس تک پھیلے ہوئے تھے اپنی اپنی جگہ ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور پھر اس شہر کی حکومت راجگان کو منتقل ہو گئی۔‘‘
ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں بہرائچ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’بہرائچ ایک خوب صورت شہر ہے جو دریائے سرجو کے کنارے واقع ہے سرجو ایک بڑا دریا ہے جو اکڑ اپنے کنارے گراتا رہتا ہے۔ بادشاہ شیخ سالار(سید سالار مسعود غازیؒ) کی قبر کی زیارت کے لئے دریا پار گیا۔شیخ سالارؒ نے اس نواح کے اکڑ ملک فتح کیے تھے۔اور ان کی بابت عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں۔‘‘(4)
مولانا امیر احمد قا سمی صاحب لکھتے ہیں:
’بہرائچ کے شراوستی جنگل میں 25 سالوں تک مہاتما بدھ تلاشِ حق کے لئے گیان و دھیان میں مراقب رہے،آج بھی شراوستی کے کھنڈرات اس عظیم متلاشئی حق کی صحرا نوردیوں کا افسانہ زبان حال سے بیان کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔مشہور چینی سیاح ہوان سانگ جو بودھ مذہب کے آثار و صنادید کی تلاش میں ہندوستان آیا تھا بہرائچ بھی حاضر ہوا تھا۔‘(5)
بہرائچ کا قدیم نام بھڑائچ تھا۔کچھ لوگ اس نام کہ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ قدیم زمانے میں یہاں بھڑ قوم آباد تھی جو یہاں حکومت کرتی تھی۔ بہرائچ کا ہندستان کی اسلا می تا ریخ میں ایک اہم مقام ہے۔بہرائچ کو سلطان محمود غزنوی کے بھانجے سید سالار مسعود غازیؒ کا جائے شہادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔سالار مسعود غازی ؒکی آمد سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں سوائے مہاتما بدھ کے آثار کے علاوہ۔ (6)
قدیم قوم جو یہاں آباد تھی جن پر آرین تہذیب اور شائستگی کا کم اثر ہوا ۔ وہ اپنے قدیم مذہب کے دلدادہ تھے۔ان میں افتاب پرستی بھی شامل تھی۔ اسی قوم میں بدھ مت کی اشاعت کے لئے مہاتما بدھ نے بھی سہیٹ مہیٹ کو اپنا مرکز بنایا تھا۔مگر جب چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کا تنزل ہوا تو قدیم ویدک مذہب یعنی برہمنوں کے مذہب کا زور ہوا۔مگر باوجود تمام کوشش اور طاقت کے وہ قوم بھڑ کی پرانی عبادت گاہوں کو نہ مٹا سکے۔بھڑ قوم سے سید سالار مسعودغازی ؒکی پہلی جنگ محرم 424ھ مطابق 1033ء میں نانپارہ تحصیل کے شمالی ومغربی جنگلات کے جنوب میں ہوئی جس کے کنارے دریائے کتھلہ بہتا تھا(موجودہ نام دریائے بھکلہ)،اور دوسری جنگ بھی ربیع الاول یا ربیع الثّانی 424ھ مطابق 1033 ء میں دریائے بھکلہ کے کنارے تین روز قیام کر کے ہوئی۔تیسری اور فیصلہ کن جنگ 13؍ رجب 424ھ مطابق 1033ء میں ہوئی تھی اس جنگ میں راجہ سہیل دیو(سہردیو) جس کا پایہ تخت گونڈہ میں تھا کی فوج بہرائچ پر چڑھ آئی اور اس جنگ میں14؍ رجب 424 ھ کو سالا ر مسعود غازی ؒ شہید ہوگئے اور جہاں شہید ہوئے تھے وہیں قبر بنی اور آج بھی وہیں مزار شریف ہے۔ بہرائچ کی پہلی دونوں جنگوں میں سالار مسعود غازیؒکو کامیابی حاصل ہوئی۔مگر جب تیسری اور فیصلہ کن جنگ شروع ہوئی تو راجاؤں کی فوجیں بڑی تعداد میں تھیں اور انھیں کمک بھی ملتی تھی جبکہ سالار مسعود غازیؒ کے ساتھی ایک ایک کر شہید ہوتے گئے۔ ( 7)
ایچ۔آر نیول نے بہرائچ گزیٹیئرمیں لکھا ہے: 1226ءمیں علاؤالدین مسعود تخت نشین ہو ااور اس نے سب سے پہلے ناصر الدین محمود کو بہرائچ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ بہرائچ اسلامی سلطنت میں اودھ کا دارالسلطنت بھی رہاہے۔سلطان ناصرالدین محمود 1226ء میں دہلی کے سلطان کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے بہرائچ صوبہ کا گورنر بھی رہ چکا تھا۔جب سلطان ناصر الدین محمود تخت نشین ہوا۔تاریخ فرشتہ میں تحریرہے کہ کچھ وقت کے بعد ناصرالدین محمود نے قتلغ خاں کو بہرائچ کا حاکم مقرر کیا تھا۔کچھ سالوں بعد اس نے 1353ء میں قاضی شمس الدین بہرائچی کو جلال الدین کاسانی کی جگہ قاضی ممالک کا عہدہ تفویض کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ اس کے تمام اہم ملکی امور میں معتمد ومشیر کی حیثیت اخیتار کر گئے تھے۔جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس وقت بہرائچ اودھ سے الگ ایک صوبہ تھا۔(8)
ناصرالدین محمود کی فرمانروائی کے دسواں سال میں ۶۵۳ ھ مطابق (10؍ فروری 1255ء-1256ء) میں سلطان محمود نے ملک تاج الدین ماہ پشانی کو بہرائچ کا ذمہ دار بنا دیا تھا اسی سبب سے قتلغ خاں نے گرفتار کیا اور قید کردیا۔لیکن تاج الدین نے اپنے کو ایک مردانہ چال کے ذریعہ آزاد کرالیا اس نے گھاگھرا ندی کو ایک کشتی سے پار کیا اور چند گھوڑ سواروں کے ساتھ بہرائچ کی جانب روانہ ہوا۔ (9)
1340ء میں سلطان محمد بن تغلق بہرائچ آیا تھا اور درگاہ سید سالار مسعود غازی ؒکی زیارت کی تھی۔فیروز شاہ تغلق کی اہمیت بہرائچ کی تاریخ میں بہت ہے۔ ۱۳۷۴ء میں سلطان فیروز شاہ تغلق دوبارہ بہرائچ آیا لیکن اس بار اس نے درگاہ کے قعلہ کی دیوار کو بنوایا اور کئی دوسری عمارتوں کو بھی بنوایا تھا۔اس وقت بہرائچ میں سید امیر ماہؒ بہرائچی حیات تھے۔ان کو درگاہ کی دیکھ بھال کے لئے جاگیر بھی دی تھی۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب’’سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’میر سید امیرماہ بہرائچ کے مشہور اور معروف مشا یخ طریقت میں تھے۔سید علاء الدین المعروف بہ علی جاوریؒ سے بیعت تھے۔وحدت الوجود کے مختلف مسائل پر رسالہ’’ ا لمطلوب فی عشق المحبوب‘‘(راقم الحروف کو ابھی حال میں ہی اس کا ایک قلمی نسخہ حاصل ہو گیا ہے۔ ) لکھا تھا۔فیروز شاہ جب بہرائچ آیا تھا تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا اور فیروز شاہ کے ذہن میں مزار سے متعلق کچھ شبہات بھی تھے جن کو میر سیدامیر ماہ نے رفع کیا۔عبد الرحمن چشتی کا بیان ہے کہ اس ملاقات کے بعد فیروز شاہ کا دل دنیا کی طرف سے سرد پڑگیا تھا اور اس نے باقی عمر یاد الٰہی میں کاٹ دی اور بہرائچ کے سفر کے بعد فیروز شاہ پر مذہبیت کا غلبہ ہو گیا تھا۔‘‘ (10)
مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں بہرائچ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’بادشاہ نے بہرائچ کی طرف جانے کا ارادہ کیا ۔یہ ایک خوبصورت شہر دریائے سرجو کے کنارے واقع ہے سرجو ایک بڑا دریا ہے جو اکثر اپنے کنارے گراتا رہتا ہے۔بادشاہ شیخ سالار مسعودؒکی قبر کی زیارت کے لئے دریا پار گیا۔شیخ سالار ؒنے اس علاقہ کے اکثر ملک فتح کئے تھے۔اور ان کی بابت عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں ۔دریا پار ہونے کے وقت بڑی بھیڑہوئی چنانچہ ایک بڑی کشتی جس میں تین سو آدمی سوارتھے۔ڈوب گئی اور ان میں سے ایک عرب جو امیر غدا کا ہمراہی تھا بچ گیا۔ہم ایک چھوٹی کشتی میں تھے اس سبب اللہ نے ہمیں بچا لیا۔ ہم نے شیخ سالارؒکی قبر کی زیارت کی۔ان کا مزار ایک برج میں ہے لیکن میں اژدہام کے سبب اس کے اندر داخل نہ ہو سکا۔پھر اس نوا ح میں ہم بانس کے جنگل میں داخل ہوئے تو ہم نے گینڈا دیکھا۔لوگوں نے اس کا شکار کیا اور سرلائے وہ ہاتھی سے چھوٹا تھا۔لیکن سر اس کا چند در چند ہاتھی کے سر سے بڑا تھا۔‘‘(11)
پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں :
’’سلطان سکندر لودھی نے بعض خرابیوں کو دور کرنے کی بھی کوشش کی تھی مذہبی رسوم کے پردے میں جو گمراہیاں عام ہو گئی تھیں ان کے خلاف اس نے تعزیری کارروائیاں کی جس میں سید سالار مسعود غازی ؒکے نیزے جو ہر سال نکلتے تھے اس کو تمام ملک میں بند کرا دیے۔‘‘(12)
ایچ۔آر ۔نے ول نے لکھا ہے:
’’مغل بادشاہ اکبر کے دور میں انتظامی ڈیویڑن میں بہرائچ سرکار کے طور پر جانا جاتا تھا جس میں موجودہ ضلع کے علاوہ گونڈہ اور کھیری ضلعوں کے کچھ حصہ بھی شامل تھے۔ بہرائچ اس وقت 11 پرگنوں میں بنٹا تھا۔ جس میں سب سے بڑا بہرائچ تھا جس میں619226 بیگہ علاقہ کاشتکاری والا تھا اور اس سے9134141 دم کی آمدنی ہوتی تھی۔بہرائچ میں سرجو ندی کے کنارے ایک قلعہ تھا جس میں 600گھوڑسوار اور4500 پیدل فوج کا دستہ رہتا تھا۔1637ء میں رسول خاں نام کے پٹھان رسالدار نے بہرائچ کے قلعہ کی ذمہ داری حاصل کی اور ساتھ میں پرگنہ سلون آباد کے 5 گاؤں حاصل ہوئے۔اس وقت رسالدار کمریہ علاقہ بونڈی میں رہتاتھا۔وہیں رسالدار رسول خاں اور ان کے بیٹے جہاں خاں کا مدفن ہے۔رسول خاں کے پوتے محمد خاں تھے جوسب سے پہلے نانپارہ میں آباد ہوئے ،جہاں ان کے ببیٹے کرم خاں نے ریاست نانپارہ کی بنیاد ڈالی تھی۔کرم خاں نے بنجاروں کے خلاف کامیاب ہو کر راجہ کا خطاب حاصل کیا۔اور اپنے بیٹے مصطفٰی خاں کے لئے کافی جائیداد چھوڑ ی جو ایک طرح سے بڑی جاگیر تھی۔‘‘(13) بہرائچ نا صرف سلطان الشہدا سالار مسعودغازی ؒ کی نسبت سے مشہور ہے بلکہ قدیم زمانے سے یہاں آل سادات بھی خوب کثرت سے موجود ہیں۔’’منبع الانساب ‘‘میں سادات نیشاپوری کے تذکرئے میں مصنف نے لکھا ہے کہ میر سید شرف الدین کنتوریؒ کے ایک صاحبزادے میر سید عزالدینؒ تھے۔سید عزالدینؒ کے ایک صاحبزادے میر سید علاء الدین کنتوریؒہیں۔میر سید علاء الدین کنتوریؒ کے دو بیٹے ہیں۔ 1۔ میر سید جلال الدین ،2۔ میر سید جمال الدین /کمال الدین۔ان کی نسلیں اب تک کنتو ،بہرائچ اور ان کے مضافات میں موجود ہیں۔یہی لو گ سادات منشاپوری ہیں جو نجیب ہیں۔(14)
اس کے علاوہ مشہور صوفی بزرگ حاجی وارث علی شاہؒ کے وارث جو وہاں کے سجادہ نشین ہوتے وہ بھی سجادہ نشینی کی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اس گدی سے الگ ہو گئے اور بہرائچ میں سکونِیت اخیتار کی۔ مشہور حکیم صفدر علی وارثی مہاجن صفاؔ اپنی کتاب ’’جلوائے وارث‘‘ میں حاجی وارث علی ؒکے شجرہ نسب جو کہ آپ نے عبد مناف سے شروع کیا اور حاجی وارث علی شاہؒ تک آیا ہے۔ اس میں آپ کے پہلے سجادہ نشین حضرت سید ابراہیم شاہؒ ہوئے۔سید ابراہیم شاہؒ کی وفات کے بعد دوسرے سجادہ نشین سید علی احمد شاہ عرف کلن میاں نواسہ حقیقی مولانا سید محمد ابراہیم شاہ ؒ ہوئے ۔ سید محمد ابراہیم شاہؒ کی ایک صاحبزادی کا نام سیدہ رسول باندی تھا انکے صاحبزادے حکیم محمدعبدالمغنی ؒ۔ سجادہ نشینی کو ہوئے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اس گدی سے الگ ہو گئے اورحکیم عبد المغنی کی والدہ نے دیوہ ضلع بارہ بنکی سے ہجرت کرکے شہر بہرائچ میں سکونیت اخیتار کی۔مشہور حکیم محمد عبدالمغنی ؒصاحب مرحوم ،اپنے وقت کے مشہور تاجر اور حکیم تھے۔محمد عبدالمغنی ؒ کے صاحبزادے مولوی محی الدین صاحب نقشبندی خانوادہ حاجی وارث علی شاہ ؒکی نسل آج بھی شہر بہرائچ میں محلہ قاضی پورہ ، بڑی ہاٹ اور درگاہ شریف محلوں میں موجود ہیں۔
حوالہ جات:
(1)خطبۂ صدارات بہرائچ،مطبوعہ 1982ء،ص3
(2)تاریخ ادب اردو جلد 16،مطبوعہ 2016ء، ص315
(3)تاریخ ادب اردو جلد 16،مطبوعہ 2016ء، ص315
(4) عجائب الاسفار سفرنامہ ابن بطوطہ، مطبوعہ 1913ء، ص190
(5) نورالعلوم کے درخشندہ ستارے، مطبوعہ 2011ء، ص 18
(6)بہرائچ گز یٹیئر، مطبو عہ، 1921ء، ص115
(۷)سلطان الشہداء حضرت سید سالار مسعود غازیؒ(مطبوعہ 2011ء، ص 48؍49)
(8)بہرائچ گز یٹیئر مطبو عہ ،1921ء، ص 120
(9)بہرائچ گز یٹیئر مطبو عہ 1912ء،ص 124
(10)سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات،مطبوعہ 1958ء، ص 414
(11) سفر نامہ ابن بطوطہ حصہ دوم ،مطبوعہ ،1986ء ،ص 136؍137
(12)سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، مطبوعہ 1958ء ص 466
(13)بہرائچ گز یٹیئر مطبو عہ ، 1912ء، ص 124
(14) منبع الانساب،ص 348
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “بہرائچ تاریخ کے آئینہ میں”
Comments are closed.