شہربہرائچ اردو ادب میں
پروفیسر طاہرمحمود
میرے سامنے تقریباً پانچ سو صفحات پر پھیلی ہوئی اردو کی ایک ضخیم کتاب ہے جو ’’بہرائچ ایک تاریخی شہر‘‘ کے عنوان والی ایک مطبوعہ تصنیف کا دوسرا حصہ ہے ۔ اس کاپہلا حصہ ’’بہرائچ تاریخ کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۹ء میں شائع ہو چکا تھا اور اس میں شہر میں مدفون ماضی بعید کے بزرگ سید سالار مسعود غازی سے شروع کرکے نہ جانے کتنے روحانی بزرگوں اور دیگر شخصیات کے تذکرے شامل ہیں۔ دو سال بعد شائع ہونے والے کتاب کے اس دوسرے حصے کا عنوان ہے ’’بہرائچ اردو ادب میں‘‘۔ بہرائچ میرا وطن پدری ہے جس کی گلیوں میں میر ابچپن گزرا تھا اور اردو میری مادری زبان جس سے مجھے عشق ہے، ایسے میں مجھے اس کتاب کی خوشہ چینی کئے بغیر نیند کیسے آسکتی تھی۔ چنانچہ ڈاک سے وصول ہوتے ہی آنکھوں سے لگائی اور پہلی فرصت میں پڑھنا کر دیا۔
کتاب کے مصنف ہیں بہرائچ کے ایک نوجوان جنید احمدنور جنھوں نے زیر نظر حصہ دوم کا انتساب میرے پچپن کے ایک عزیز دوست کو کرتے ہوئے لکھا ہے ’’استاد الشعراء محترم حضرت اظہار وارثی مرحوم کے نام۔ آپ کی دعاؤں ،محبت اور شفقت نے ہی مجھے قلم چلانے کے قابل کیا‘‘۔ اگلے صفحے پر میرا اپنا ایک شعر درج ہے
’’ہے علم و فن کی روایات کا امیں یہ شہر
ادب نواز ہے یارو ہوائے بہرائچ‘‘
اس سے آگے کتاب کے شروع میں ہی مصنف نے خود اپنی ایک طویل نظم شامل کی ہے جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں:
مجھے عشق ہے اپنے شہر سے، میں تاریخ لکھتا ہوں
مجھے محبت ہے اپنے اسلاف سے، ہاں میں لکھتا ہوں
کہتے ہیں لوگ میں ہوںسرپھرا، ہاں ہوں میں سرپھرا
مجھے تلاش ہے گمشدہ خزانوں کی، ہاں میں لکھتا ہوں
یعنی کہ صاحبزادے نے کم عمری میں ہی دوسروں کے طنزو مذاق برداشت کرتے ہوئے اپنے وطن کی ادبی تاریخ لکھنے کا زبردست کارنامہ انجام دیا ہے اور وطن کے بزرگوں کےلیےاپنی دلی عقیدت اورخود اپنی خاندانی شرافت اور سعادتمندی کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔
] سخت جانفشانی اور عمیق تحقیق کے بعد لکھی گئی اس کتاب میں بہرائچ سے تعلق رکھنے والے ایک سو زائدسے ادیبوں اور شعراء کرام کا تذکرہ ہے۔ فہرست ’’بہرائچ کے پہلے شاعر حضرت شاہ نعیم اللہ بہرائچی ‘‘ سے شروع ہوتی ہے جو اٹھارویں صدی کے ایک دینی بزرگ تھے، اور پھرطویل قلمی سفر طے کر کے دور حاضر کے شعراء تک کا احاطہ کرتی ہے۔ فہرست مشمولات پر نظر ڈالتا ہوں تو کئی جانے پہچانے چہرے جنھیں میں نے بچپن یا عہد شباب میں دیکھا اور سنا تھا سامنے آجاتے ہیں اور یادوں کے دریچے کھلنے لگتے ہیں۔ میرے کچھ استاد، کچھ ہم جماعت، کچھ پڑوسی کچھ اہل خانہ، کچھ دوست، میرے والد محترم، ایک مرحوم حقیقی بھائی اور میں خود، سبھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ شہر کے معروف شعراء شوقؔ بہرائچی، بابا جمالؔ، شفیقؔ بریلوی، ِ ساغرؔ مہدی، اظہاؔر وارثی ،شاعرؔ جمالی، ناظمؔ جعفری، محسن ؔزیدی، فرحت احساسؔ، حامدؔ بہرائچی، عبرتؔ بہرائچی، سبھی اس ادبی کہکشاں میں جلوہ گر ہیں۔ ادیبوں کی تحریروں اور شعراء کرام کے کلام کے نمونے ہر تفصیلی اور مختصر باب میں شامل ہیں۔
کتاب کا پیش لفظ شہر میں مقیم ایک سرکاری افسر محمد حسنین نے لکھا ہے جن کی اردو زبان پر کامل قدرت اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’’تاریخ کا آئینہ کیسے کیسے چہرے دکھاتا ہے، یہ بڑا دلکش موضوع ہے کہیں ہنساتا ہے کہیں رلاتا ہے۔ اور اردو ادب کی دلچسپی کا کہنا ہی کیا ، کیسے کیسے گل بوٹے باغ ادب کو مہکاتے نظرآتے ہیں۔ جنید احمد نے نور نے جس تجسس، محنت اور لگن کے ساتھ یہ کام شروع کیا تھا انھیں یہ اندازہ بھی نہ رہا ہوگا کہ یہ کام اتنا طویل ترین ہو جائے گا۔ شہیدوں ولیوں بزرگوں مزاروں اورخانقاہوں کے حالات قلمبند کئے، انکے فیوض و برکات کے قصے عام کئے، کتب خانوں کی خاک چھانی، موبائل میں آستانوں کی تصویریں قید کیں، انھیں قرطاس پر اتارا ،اوراردو ادب کے درخشاں اور روشن ادیبوں کے حالات زندگی پر تحریریں لکھی اور تصویریں بھی چسپاں کیں۔ یہ نو عمر جنید کا ہی وصف ہے‘‘۔ کتاب پر نظر ڈالنے والوں کو اس پیش لفظ کی حقیقت نگاری اس کے تمام تر صفحات پر بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
کتاب کا مسودہ جب تیاری کی آخری منزل میں تھا تب اس کے پر عزم مصنف نے اس کے کچھ حصے مجھے بہ طور نمونہ بھیج کراس کے لیے کچھ دعائیہ کلمات لکھنے کی استدعا کی تھی جس کی تعمیل کردی گئی تھی۔ مطبوعہ کتاب موصول ہوئی تو دیکھا کہ اس کے دلنشیں کور کے پیچھے میرے وہ چند جملے بھی موجود ہیں جن میں تحریر ہے کہ’’ شمالی ہندوستان کے ایک مردم خیز شہر بہرائچ پرجو کہ ہمارا وطن پدری ہے اس کے ایک ہونہار اور سعادتمند فرزندجنید احمد نور سلمہ اللہ تعالیٰ نے دو حصوں پرمشتمل ایک ضخیم کتاب لکھ کروہاں کے دینی، سیاسی اور ادبی مشاہیرسے پوری اردو دنیا کو متعارف کروایا ہے۔ تاریخ اور ادب کے میدان میں ان کا یہ قابل قدر کارنامہ لائق صد تحسین اور وہاں کے دیگر نوجوان شہریوں کے لیے معلومات کا ایک بیش قیمت خزینہ ہے۔صدق دل سے دعا ہے کہ مالک عزّوجل انھیں وطن عزیز کی اس بے مثال خدمت کیلئے اجر عظیم سے نوازے اور دنیا و آخرت میں انکا اقبال بلند فرمائے‘‘۔
میں نے وقت نکال کے اس ضخیم کتاب کا ایک ایک ورق بلکہ ایک ایک لفظ پوری دلچسپی سے پڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے۔ اپنے وطن کو منظوم خراج عقیدت میں پہلے بھی کئی بار پیش کرچکا تھا، اس کتاب نے ذہن و دل پر ایسا اثر ڈالا کہ ایک دن دیر رات گئے اچانک یہ ایک اور نظم ہوگئی:
نیپال کی سرحد پہ وہ اک بزم مزین
وہ شہر اودھ حضرت مسعود کا مدفن
درگاہوں کا تکیوں کا مساجد کا وہ گلشن
ارواح سعیدہ کے مزارات کا مسکن
الفت کا محبت کا رواداری کا مخزن
صدیوں سے بغلگیر جہاں شیخ و برہمن
اس شہر کے اک گوشے میں وہ اپنا نشیمن
اس کے درو دیوار وہ دالان وہ آنگن
خوشبو سے مہکتے ہوئے کمروں کی سجاوٹ
دروازوں پہ آویزاں وہ تہذیب کی چلمن
وہ نور میں ملبوس بزرگوں کی نمازیں
شفقت بھرے لہجوں کا برستا ہوا ساون
یادوں کے جھروکوں میں سجا آج تلک ہے
آغوش میں اس گھر کی گزارا ہوا بچپن
جنید میاں کی تیار کردہ یہ کتاب واقعی کسی ادبی عجوبے سے کم نہیں ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے والے ایک تبصرہ نگار نے ایک سہہ ماہی جریدے ’’فکر و نظر‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ ’’ایک ڈاکومنٹری کے طور پریوپی کے قدیم شہر بہرائچ کے خصائص و فضائل کو بیان کرنے کی ایک کامیاب سعی ہے‘‘۔ ان کے اس تبصرے کی میں صمیم قلب سے پوری پوری تائید کرتا ہوں ۔
گوناگوں مشغولیات کے باعث میرا بہرائچ جانا کم ہی ہو پاتا ہے۔ وہاں کے ایک بزرگ شاعرعبرتؔ بہرائچی مرحوم پر جنھیں میں نے بچپن میں خوب خوب دیکھا اور سنا تھا حال ہی میں ایک یادگاری کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کے فاضل ترتیب کار سفیان انصاری کے مسلسل اصرار پرکتاب کے اجراء کے لیے نومبر۲۰۲۳ ءمیں وطن پدری کی زیارت پانچ سال کی غیر حاضری کے بعدنصیب ہوئی۔ میاں جنید ایک طویل عرصے سے میرے ساتھ رابطے میں رہے ہیں لیکن ان سے پہلی روبرو ملاقات اسی تقریب میں ہوئی ۔ اجرائی تقریر میں ان کے لیے الفاظ تحسین اور دعائیہ کلمات دل کی گہرائیوں سے نکلے۔ صاحبزادے کا علمی و ادبی کا سفر اب بھی رواں دواں ہے اور، خدا بھلا کرے موبائیل فون کے موجد کا، مجھ سے بھی از راہ سعادت مندی گاہے بہ گاہے ربط میں رہتے ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔