بیک ڈور پالیسی
یہ 14اکتوبر شام 5بجے کا وقت تھا۔ ہم گرانڈ ملینئم الوحدہ ہوٹل ابوظہبی، کی لابی سے باہر نکل کر کھڑے ہو گئے۔ فون کال کے مطابق چند ہی لمحوں بعد پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی صاحب بلیک کلر کی بی ایم ڈبلیو سے باہر نکلے اور آ کر چوہدری محمد خورشید زمان کو گلے لگا لیا۔ سفیر محترم فیصل ترمذی صاحب سے پہلی ملاقات 25مئی کو ہوئی تھی جب پاکستان سے مطالعاتی دورے پر آئے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ راقم الحروف انہیں پاکستان کے سفارت خانہ میں ملنے گیا تھا لیکن چوہدری خورشید زمان کو میں سنہ 1998 سے جانتا ہوں جب 1997 کے انتخابات میں وہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر تحصیل گجر خان سے پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف (جو بعد میں 22جون 2012 کو وزیراعظم بھی بنے) کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت چوہدری خورشید زمان کی عمر محض 25سال اور چند دن تھی اور وہ قومی اسمبلی کے کم عمر ترین ممبر بن گئے تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں حنا ربانی کھر کے بھائی اور پیپلزپارٹی کے رضا ربانی کھر مظفر گڑھ کے حلقہ NA-183 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو ان کی عمر 26سال تھی۔ گجرات کے حلقہ NA-68 سے پی ایم ایل کے چوہدری حسین الہی قومی اسمبلی کے ممبر بنے تو ان کی عمر بھی 26سال تھی۔ جبکہ 2018 ہی کے الیکشن میں کراچی کے حلقہ NA-248 سے پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل ایم این اے منتخب ہوئے تو ان کی عمر 25سال اور چند ماہ تھی جن کو عموما کم عمر ترین ممبر قومی اسمبلی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت ابھی تک پاکستان کی قومی اسمبلی کے سب سے کم عمر ممبر چنے جانے کا ریکارڈ چوہدری محمد خورشید زمان صاحب ہی کے پاس ہے۔
شام 5بجے سفیر محترم فیصل نیاز اور چوہدری خورشید زمان صاحب، العین روانہ ہو گئے جہاں وہ گورنر ہاوس میں النہیان شاہی خاندان کے ساتھ رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ جب چوہدری صاحب رات اڑھائی بجے واپس ہوٹل پہنچے تو میں نے ان سے کھانے کی میز پر ہونے والی گفتگو کے بارے استفسار کیا تو انہوں نے کچھ تفصیل کے بعد بتایا کہ وہ میٹنگ "بیک ڈور پالیسی” کا حصہ تھی۔ چوہدری خورشید زمان صاحب پروقار شخصیت اور بے پناہ سیاسی بصیرت و پختگی کے حامل سیاست دان ہیں۔
3فروری 1997 کو میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا اور اگلے روز چوہدری خورشید زمان کو ناشتے پر بلایا۔ چوہدری خورشید زمان نے انگلینڈ لندن سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ وہ مدلل اور پرکشش گفتگو کے ماہر ہیں۔ اگر انہیں "ٹیبل وننگ پرسنلٹی” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ چند روز بعد حکومت نے چوہدری خورشید زمان کی سربراہی میں پارلیمنٹیرئن کا ایک وفد خیر سگالی دورے پر جاپان بھیجا اور جب یہ وفد واپس آیا تو وزیراعظم محمد نواز شریف نے چوہدری خورشید زمان کو پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع تعینات کر دیا۔ 1999 کے "ملٹری کوو” تک جتنا عرصہ ن لیگ کی حکومت رہی دفاع کی وزارت کا قلمدان خود وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس تھا، جبکہ دفاع کے دیگر سارے معاملات پارلیمانی سیکرٹری دفاع چوہدری خورشید زمان دیکھتے رہے۔
اس دوران چوہدری خورشید زمان کے سیاسی تجربے اور "سٹیٹس مین شپ” میں اضافہ ہوا۔ انہی دنوں وہ بطور صحافی قومی اخبارات میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ ان کا ایک مضمون بعنوان "کس مسیحا کی تلاش ہے” بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے انگلستان اور یورپی یونین کے سفیروں سے اچھے اور دوستانہ تعلقات استوار کیئے۔2002 میں جب بلوچستان کے میر ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کی نظر انتخاب ایک بار پھر چوہدری خورشید زمان پر پڑی اور انہوں نے چوہدری صاحب کو سٹیٹ منسٹر کے برابر سیاسی مشیر کے طور پر وزیراعظم ہاو’س میں تعینات کر دیا۔ اگرچہ اس کے بعد چوہدری خورشید زمان نے کبھی کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا مگر اپنی سیاسی ذہانت کی بناء پر اندرون و بیرون ملک میں پاکستان کے لئے وہ "خفیہ خدمات” مسلسل انجام دیتے رہے ہیں۔ اگلی صبح 15اکتوبر کو ہم ملینئم ہوٹل کے فرسٹ فلور پر ناشتے کی میز پر پاکستان کے محفوظ مستقبل کے بارے میں سیر حاصل باتیں کرتے رہے۔17جولائ 2012 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے "تحریک تحفظ پاکستان” کی بنیاد چوہدری خورشید زمان کے گھر I/8 میں رکھی اور ان کو انہوں نے جماعت کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ میں نے چوہدری خورشید زمان کو متحدہ عرب امارات میں بارہا آتے دیکھا ہے۔ 1998 میں برطانوی سفارت کار ڈومینک جیریمی اسلام آباد میں برطانوی سفیر کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے جن سے چوہدری خورشید زمان کے خصوصی مراسم تھے۔ 2010 میں یہی ڈومینک جیریمی متحدہ عرب امارات میں برطانوی سفیر بن کر آئے تو انہوں برٹش کوئین کی "ڈائمنڈ جوبلی” پر چوہدری خورشید زمان کو خصوصی دعوت نامہ بھیجا۔ اس دن سے آج تک میں وثوق سے کہتا ہوں کہ چوہدری خورشید زمان صاحب نے ہمیشہ پاکستان کے مفاد کی وکالت کی ہے۔ 11بجے ہم ہوٹل کے گراونڈ فلور کی لابی میں آئے تو وہاں صدر گرینڈ اوورسیز طارق جاوید قریشی اور سینئر رہنما مسلم لیگ (ن) راجہ محمد شفیق کی معیت میں ہم دبئ روانہ ہو گئے۔ ہمارا دوپہر کا کھانا دوبئی پارک جمیرا میں پاکستانی برٹش بزنس مین سجاد حسین کی رہائش گاہ پر تھا اور شام کا ڈنر ڈاؤن ٹاؤن دبئی میں ایک اور پاکستانی برٹش کے ساتھ تھا۔ ہم واپس دبئ سے ابوظہبی کے لئے کہیں رات 11بجے جا کر روانہ ہوئے۔ اگلے روز یعنی 16اکتوبر کو 2بجے چوہدری خورشید زمان کو ابوظہبی ائیر پورٹ پر چھوڑ کر واپس پلٹا تو ذہن پر پاکستان کے آئندہ مستقبل کے بارے سوچتے ہوئے گومگو کی ایک عجیب سی کیفیت محسوس ہو رہی تھی۔
بلاول بھٹو زرداری جب لاڑکانہ کے حلقہ NA-200 سے ایم این اے منتخب ہوئے تو ان کی عمر 30سال تھی اور سوات کے حلقہ NA-04 سے مراد سعید ایم این اے بنے تو ان کی عمر 31سال تھی۔ لیکن سیاست اور معیار کے درمیان فرق واضح ہے۔ گذشتہ 15برس سے چوہدری خورشید زمان پاکستانی عوام کو یکجا کرنے کے لئے "ONE NATION” کی تحریک بھی چلا رہے ہیں۔ ناجانے ہمارے درمیان خاموشی کی نظر ہوتے ایسے کئی "چھپ رستم” خورشید زمان موجود ہیں۔ کچھ لوگ نواز شریف کو بھی مسیحا بنا کر پیش کر رہے۔ کیا وہ واقعی "مسیحا” ہے؟ جب کچھ چشم بیدار طبقہ میاں نواز شریف کو چوتھی بار اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتا دیکھ رہا ہے تو وہ یہ ضرور سوچتا ہو گا کہ کیا:
شہر کی بے چراغ گلیوں میں!!!
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی؟
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔