بابِ کھوئیاں، نئے دور کا آغاز

شاہد اعوان، بلاتامل

بابِ کھوئیاں

تمام تعریفوں کے لائق ہے وہ ذاتِ لاشریک جس کے قبضۂ قدرت میں ہر ذی روح کی جان ہے۔ تعریف سننے کی تمنا بنی نوع انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے بعض اوقات اس کمزوری کے اندر انسان کی طاقت پنہاں ہوتی ہے ۔ تعریف سننے کی آرزو میں انسان کے اندر کا خوابیدہ فنکار بیدار ہو جاتا ہے اور تعریف نہ ہو تو فن افسردہ ہو جاتا ہے ۔ انسانی صفات تعریف کی متقاضی ہیں ، تعریف سننے والے انسان کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعریف کرنے والے کی اصلاح نہ ہو۔ خیال رہے تعریف حد سے بڑھ کر خوشامد کا روپ نہ دھار لے ، تعریف کے باب میں سب سے زیادہ خطرناک مقام وہ ہے جب کوئی کم ظرف اپنی ہی زبان سے خود اپنی تعریف کر رہا ہو یہ بھی ایک عذاب ہے کوئی آئینہ اسے اس عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔ تعریف جہاں انعام ہے وہاں سزا بھی ہے ، تعریف صفت ساز بھی ہے اور صفت شکن بھی لیکن اپنے منہ سے اپنی تعریف انسانیت کی تذلیل ہے۔ امید ایک فوارہ ہے جس سے جرأت پیدا ہوتی ہے امید کے سہارے کے بغیر ہم اپنے حوصلے پست کر بیٹھتے ہیں۔ روح جس خوراک پر زندہ ہے وہ امید ہے، اچھا ڈاکٹر اپنے مریض کو صحتیاب ہونے کی امید ہر حال میں دلاتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے مقاصد حاصل کرنے کے لئے امید نے ہی حوصلہ اور جرأت دی اور کئی ناکام لوگ کامیاب ہوئے۔ تعریف اور امید کا یہی فلسفہ حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے نوجوانوں سے وابستہ کیا :
کبھی اے نوجوانِ مسلم! تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالاتھا جس نے پاؤں سے تاجِ سرِ دارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
قریباٌ نصف صدی پیچھے جاؤں تو تلہ گنگ کے انتہائی پسماندہ اپنی جنم دھرتی ’کھوئیاں‘ کو تمام بنیادی سہولیات سے محروم پاتا ہوں مگر آج گاؤں کے ان روشن دماغ سپوتوں کی ہمت اور کامیابیوں کو دیکھ کر پھر سے جوان ہو گیا ہوں۔ میرے گاؤں میں اس زمانے میں کوئی بنیادی سہولت موجود نہ تھی ہماری سب سے بڑی تفریح ’منجالہ‘ میں والی وال یا کبڈی کے کھیل ہوا کرتے تھے ہاں گلی ڈنڈا کے ’’میچ‘‘ بھی ہوا کرتے تھے۔ سچ پوچھئے تو میٹرک کے بعد اخبار پڑھنا نصیب ہو اتھا سوائے ریڈیو کے کوئی دوسرا میڈیا ہمارے زمانے میں نہ تھا، جب آج کے زمانے سے اپنا موازنہ کرتا ہوں تو ہمیں وہ سہولتیں لائل پور جیسے صنعتی شہر میں جا کر حاصل ہوئیں جو آج پہلی جماعت کے بچے کو بھی میسر ہیں۔
6ستمبر2022ء کو علاقہ کے نوجوان صحافی عزیزم حسن ناصرملک اور اتحاد ویلفیئر سوسائٹی کھوئیاں کے سرگرم راہنما ملک مختار احمد کی جانب سے اپنے گاؤں میں ’’بابِ کھوئیاں‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی خلوص و محبت بھری دعوت ملی تو دل میں اڑ کر گاؤں پہنچنے کی خواہش پیدا ہوئی کیونکہ سوائے غمی خوشی کے چند روز سے زیادہ گاؤں میں قیام کرنا میری قسمت میں نہیں، سوچا اس بہانے پرانے دوستوں اور نئی نسل کے ان پرعزم نوجوانوں سے ملاقات ہو جائے گی ۔

بابِ کھوئیاں، نئے دور کا آغاز

نماز عصر کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں منعقدہ ’’بابِ کھوئیاں‘‘ کی شاندار تقریب اور دل آویز بڑا دروازہ جو اتحاد ویلفیئر سوسائٹی کھوئیاں کے ان نوجوانوں کی ہمت و ولولے کی زندہ مثال ہے جو اس سڑک سے گزرنے والے ہر شخص کی نظروں کو خیرہ کرے گا اور وہ اس خوبصورت دروازے کو آنکھ بھر کر دیکھیں گے۔ اس دروازے کی تعمیر میں سوسائٹی کے ان جوانوں کے سنہری خواب اور مستقبل کے روشن ارادوں کے راز پنہاں ہیں جو اپنے گاؤں کی تعمیر وترقی کے نئے در وا کرنے کی آرزو سینوں میں سجائے ہوئے ہیں ۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول پاکﷺ سے ہوا گاؤں کا محمد حسان نامی نوجوان کا طرزِ بیاں اور اشعار کی ادائیگی اس بات کا غمازی تھا کہ اب میرا گاؤں وہ نہیں رہا جو ہمارے زمانے میں تھا غمِ روزگار اور فکرِ معاش نے ہم کو گاؤں سے تو دور کر دیا مگر خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارے بعد اس عظیم گاؤں کی باگ دوڑ ان نوجوانوں کے ہاتھ میں آ چکی ہے جو کسی قوم قبیلے ، ذات برادری کے مرہون منت نہیں بلکہ گاؤں کا ہر فرد چاہے وہ غریب ہے یا امیر ، سب کے سب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔ یہ اتحادو اتفاق دیکھ کر دل سے دعا نکلی کہ مرے مولا! اس اتحاد کو ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رکھ اور اس گاؤں کو نظر بد سے محفوظ بنا۔ برادر ملک محمد سلیم، ملک ظفر، میرے انتہائی محترم انگلش ٹیچر ملک محمد اسلم، برادر اکبر سابق لیبر لیڈر ملک محمد حسین، میرے خاندان کے بزرگ اور نوجوان بچے اور سب سے بڑھ کر ہمارے گاؤں کا فخر اور سرمایۂ دین و ملت علامہ حافظ صابر ایوب جو راولپنڈی ڈویژن میں علم و معرفت کے روشن مینار اور تلہ گنگ کی پہچان ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او چکوال نے ان کی زیر نگرانی قائم بچیوں کے ایک مدرسے کا دورہ کیا اور وہاں جدید تعلیمی سہولتیں دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ دینی مدارس کے بارے ہمارے خیالات یہاں آکر بدل گئے ہیں۔ حافظ صاحب کے درجنوں مدارس تلہ گنگ و گردونواح کے لئے مثالی درسگاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تقریب میں لاوہ اور ملتان خورد کے قلم قبیلے کے نوجوان ساتھیوں کو دیکھ کر دلی تسکین ملی علمائے کرا م ہوں یا دیگر سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی تقاریر سن کر گاؤں میں چھپے ٹیلنٹ کااندازہ لگایا جا سکتا ہے جن کی شبانہ روز کی کاوشوں کی بدولت گاؤں کو متعارف کرانے میں ان کا کردار واقعی قابل ستائش ہے جنہوں نے بغیر کسی حکومتی سپورٹ کے اپنے ہی لوگوں کی مدد سے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں جن کی تعریف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ جاوید اقبال ملک جنہیں’’سہارا‘‘ کا لقب دیا گیا، ملک مختار احمد نے اپنی تیرہ رکنی ٹیم کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے لئے وہ کچھ کر دکھا یا ہے جو بڑی بڑی این جی اوز بھی نہیں کرسکتیں۔ تقریب میں 25سلائی مشینیں بھی نظر آئیں جو گاؤں کی ان ہنر مند بچیوں کو دی جانی تھیں اور یہ سن کر تقریب میں موجود ہر فرد کا آنکھیں نم ہو گئیں کہ یہ مشینیں باعزت طریقے سے ان بچیوں کے حوالے کی جائیں گی جس کی خبر نہ کسی پڑوسی کو ہو گی نہ ہی سوسائٹی کے عہدیداروں کو۔ گزشتہ ماہ سوسائٹی نے لاہور سے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کو اپنے گاؤں مدعو کیا اور ناصرف مریضوں کا مفت چیک اپ کرایا بلکہ ادویات بھی فری تقسیم کیں۔ اسی طرح سوسائٹی ممبران نے خون عطیہ کر کے ہسپتالوں میں موجود افراد کو بلامعاوضہ خون دیا۔ موجودہ سیلابی صورتحال میں جب ملک کا60%حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے انہوں نے اپنے گاؤں کے لوگوں میں شعور پیدا کیااور لاکھوں روپے کا راشن ، کپڑے، بستر و دیگر سامان سیلاب زدہ علاقوں تک خود پہنچا کر ثابت کیا کہ اس مقصد کے لئے شہر ہی نہیں دیہاتوں کے لوگ بھی زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ قومی تہواروں پر نوجوانوں میں شعور اجاگر کرنا بھی تنظیم کے عہدیداروں نے خوب نبھایا ۔ تقریب کا آخری پروگرام ’بابِِ کھوئیاں‘‘ کی افتتاحی تقریب تھا جس کا فریضہ سوسائٹی ذمہ داران نے بندہ عاجز، حافظ صابر ایوب اور مولانا محمد ادریس کو سونپا ۔
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

AWAN

شاہد اعوان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

نویدِ حضوری

بدھ ستمبر 14 , 2022
تاریخ نعت کی بات کی جائے تو یہ روزِ اول سے شروع ہوتی ہے اور آج تک جاری و ساری ہے قیامت تک رہے گی۔
نویدِ حضوری

مزید دلچسپ تحریریں