کہا یہ جاتا ہے کہ روزِ قیامت ایک ایسا پُل ہو گا جو تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور بال کی نوک سے زیادہ باریک ہو گا
معلوم انسانی معاشرتی تاریخ کا بنیادی اور اہم ترین، معروف و پسندیدہ ترین لیکن ساتھ ہی متنازع ترین لفظ آزادی ہے۔
محترم پروفیسر صاحب بلاشبہ ایک نابغہءِ روزگار ہستی تھے , آپ نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک میں تقریباً 34 سال تک تدریسی فرائض سرانجام دیئے
اگر کوئی صاحبِ حیثیت مسلمان یہ فریضہ ادا نہیں کرتا تو سرکار دو عالم ﷺ کے فرمان کے مطابق بروزِ قیامت اندھا محشور ہو گا۔
قُرآن مجید فُرقانِ حمید نے عدل کے لیے دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ عدل اور قسط ۔ اور فارسی زبان میں اسی کو ہی انصاف کہا گیا ہے۔
رمضان المبارک اور عیدالفطر ہمیں باہمی محبت، اُلفت، یگانگت اور اخوت کا درس دیتی ہے۔ یہ عید مساواتِ محمدی ﷺ کے عملی مظاہرے کا دن ہے۔
امید کا انحصار عمل پر ہے۔ یعنی عمل بھی امید کے بغیر نہیں ہوتا؛ اور امید عمل کے بغیر جہالت کے سوا کچھ نہیں اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کو قُرآن نے کفر قرار دیا ہے
ساری عزت تو اللہ ہی کی ہے اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں (بلند ہو کر) پہنچتی ہیں اور اچھے کاموں کو وہ خود بلند فرماتا ہے
وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃًلِلعَالَمِین کی امت آئیے سراپا رحمت بن جائیں، قُرآن کے فرمان کے مطابق اُسوہءِ حسنہ کی جُزوی نہیں مکمل پیروی کریں
سردار صاحب فطری طور پر شاعر تھے اور بہت بچپنے میں ہی شعر موزوں کر لیتے تھے میرے خیال میں شاعری ہے ہی خُدا داد صلاحیت کا نام، شاعر ہوتا ہے، شاعر بنا نہیں جا سکتا