مالک بن انسؒ فقیہ مدینہ کہتے ہیں کہ میں اکثر اوقات جناب امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ جب بھی میں ان کے پاس گیا ہوں
چاندنی سے دیا جلاتے ہیں” کا مصنف خالد عنبر بیزار اٹک کا ” ساغر صدیقی ” ہے جسے زمانے کی بے اعتناٸیوں اور وقت کے طوفانوں نے پہلے زخمی کیا اور بعد میں
اسی سوز دل سے علم و عمل کا آفتاب روشن ہو کر تیرہ و تار دنیا کو بدل کے رکھ دیتا ہے۔ اور انسان بندگی کے عمل سے معراج انسانیت پر فائز ہوجاتا ہے۔
انسان تو اشرف المخلوقات ہے اسے اشرف ہوتے ہوئے سب سے زیادہ ثناء بیان کرنی چاہیے اور نماز شب میں اپنے قیام و رکوع و سجود کو خشوع و خضوع سے طول دینا چاہیے۔
نماز شب سے علم و آگہی کے درخشاں موتی حاصل ہوتے ہیں جو انسان کو بلندی اور عظمت عطا کرکے اللہ کے قریب کر دیتے ہیں۔
سوز و گداز ایک طاقچے میں رکھی ہوئی قندیل کی مانند ہے جو خود تو جلتی ہے لیکن دوسروں کو روشنی بہم پہنچاتی ہے
ہمارے امام حسینؑ نے شبِ عاشور کا ایک حصہ نماز شب کے لیے وقف کر دیا تھا۔ امام جانتے تھے کہ میرا آج کا عمل آنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہوگا
عاصم بخاری گل و بلبل، طوطا و مینا اور محبوب کی آنکھوں کے قصیدے نہیں لکھتے بلکہ معاشرے کو سدھارنے کے گُر استعمال کرتے ہیں
کلام پاک انسان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے تو کوئی ہے جو اس دعوت پر عمل کر کے سجدہ ریز ہو جائے کیونکہ یہی سجدہ بندگی کی معراج ہے