تتلی بھنورے سے کہتی تھی
آو باغ میں ہم چلتے ہیں
گاوں میں تنویر کے پاس لوگ امانتیں رکھتے تھے دور دور تک اس کی شرافت کے چرچے تھے جو شخص بھی گاوں سے باہر جاتا
آئی اٹک کا اہتمام سید جہانگیر بخاری نے انتیس اکتوبر ٢٠٢٠ میں کیا جو زندگی کے سارے پہلو سمیٹے گوگل پر علم و ادب کے چراغ جلا کر
ایک جنگل میں سنہرا ہرن رہتا تھا جس کی خوبصورتی کے دور دور تک چرچے تھے جنگل کے سارے جانور نہ صرف اسے دیکھنا چاہتے بل کہ اس سے دوستی کرنا
جیدی تیسری جماعت میں پڑھتا تھا سکول میں اُس کو استاد جو بھی سبق دیتے تھے وہ یاد کر لیتا تھا جب اسے ماں سکول کے لیے ٹفن تیار کر کے دیتی تھی
کسی جنگل میں ایک شیر اور لومڑی رہتے تھے جن کی دوستی کی دور دور تک دھوم تھی وہ مل کر شکار کرتے اور مل کر کھاتے تھے
داود تابش کی اشعار میں اسلوبیاتی صباحت اپنے تقدس کے ساتھ دیدنی ہے فکری عفت اشعار کے اندر واضح نظر آتی ہے جب اسم محمد ﷺ کا ذکر کیا جائے
شجاع اختر اعوان نے جب کائنات کی وسعتوں کو دیکھا تو ہر طرف رنگ و نور پھیلا ہوا پایا اور اس کے ساتھ وطن عزیز کے چار خوبصورت موسم پاۓ
ساری تتلیاں پھولوں کے ساتھ باتیں کر رہی تھیں اُن کے رنگ پھولوں کے رنگوں کے ساتھ ملتے جلتے تھے ان کے رنگوں نے باغ
سلطان الانبیاء ﷺ سے عشق دو جہان میں ممتاز کر دیتا ہے عاشق کی فکر ایک منفرد خوشبو کا طواف کرتی رہتی ہے حضوری نصیب عاشق