حریم زیست میں تمام تر رنگینی و رعنائی الفاظ کی صوتی ترنگ سے ہے۔ انسانی جزبات کے اظہار میں الفاظ کے عمل دخل سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ انسانی نفسیات، تہذیب اور تخیل کی اڑان سب الفاظ کی صوتی ترنگ سے ہی وابستہ ہے۔

عشق جب مزید اوجِ ثریا کی طرف محو پرواز ہوتا ہے تو محبوب کے قدموں کی خاک عاشق کو پیاری لگتی ہے اور وہ اس سے بھی بہارِ ضو کشید کر کے شفا یاب ہوتا ہے چشمِ امواجِ بقا نبی اکرمؐ کے عشق پر سید محمد نور الحسن کا دعوی بھی مودت کی ایک کڑی ہے جسے انتہائی شائستگی سے یوں بیاں کرتے ہیں :-

الفاظ کی صوتی ترنگ جب بالیدگیء افکار پہ دستک دیتی ہے تو الفاظ کی رم جھم اشعار کی صورت میں ایک ریشمی تبسم لے کر شعر میں ڈھلتی ہے غم گسارِ دل فگاراں مدنی آقاؐ کاعشق اسے نعت کا آہنگ عطا کرتا ہے