خدمت کو عبادت ماننے والے نوجوان ادیب محمد یوسف وحید بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں ۔
یوسف وحید کے الفاظ اُس کے ذہن و دل کا خوب ساتھ دیتے ہیں اور اُس کی آنکھوں کی چمک ، کچھ کرنے کی دُھن اور خود اعتمادی اُس کے اعلیٰ ادبی پسِ منظر کا پتہ دیتی ہے
اس نے اپنے باپ کو قتل کر کے قبیلے کی سرداری حاصل کی تھی اور بیٹھتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ،جس کسی نے میرے خلاف بغاوت کی اس کو موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا
محمدیوسف وحید, جو شعور و ادراک کی شمع جلائے اس کی کرنوں کی ترسیل کے لیے نہ صرف مقام ِمطلوبہ تلاشنے بلکہ دیپ سے دیپ جلانے میں ہمہ وقت مصروف نظر آتا ہے۔
لیڈرو!ذرا دھیان سے۔۔۔۔ہمیں کسی اندھے کنویں میں نہ پھینک دینا
مقامی تھانے کے ایس ایچ او نے چوک میں چاروں طرف بکھری ہوئی لاشوں کا معائنہ کرنے کے بعد وہاں جمع لوگوں پر ایک نظر دوڑائی اور ذرا اونچی آواز میں پوچھا
میں نے اس کے ہی لئے خود کو سجا رکھا تھا
وہ یہ سمجھا کہ یہ گل اس نے کھلا رکھا تھا
میں سوجوں یہ کیوں اُجلی اُجلی سحرہے، یہ کیسا دلوں میں سرور آگیا ہے
مہر جمالی نے خوبصورت تراکیب استعمال کی ہیں ڈرامائی انداز، منظر نگاری اور موسیقیت کا اہتمام بھی ہے۔ ان کی بحریں مترنم اور قافیہ ردیف میں صوتی آہنگ پایاجاتا ہے