ملہو والا کے آئین کے مطابق مرغی صرف تین مواقع پر پکانے کی اجازت تھی۔
باجرے کے سٹوں کا اپنا لطف تھا۔ کچا سٹا یا چھلی کی طرح بھونا ہوا سٹا تلی پرمروڑا جاتا ، پھونک مار تے تو بھوسی اڑ جاتی تلی پر دانے رہ جاتے
گندم کٹائی ، گہائی اور بھوسا کھلیان ( کھلواڑے) سے گھر پہنچانے کےلئے زیادہ بندوں کی ضرورت ہوتی تھی۔اس کے لئے مزدور نہیں ملتے تھے
ہمارے گاؤں میں چیبڑ کی کمیابی کی وجہ سے اس کا رواج نہیں تھا ۔پتہ چلا کہ یہ سوغات لاری اڈا فتح جنگ سے ملتی ہے۔
دیہاتی زندگی میں کوشش ہوتی تھی کہ کوئی چیز دکان سے نہ منگانی پڑے ۔ حلوہ کھانے کو دل کرتا تو گھر کے آٹے اور گڑ کا حلوہ بنا لیا جاتا۔
تنور سے اُتری ہوئی روٹی میں انگلیوں سے کیے گئے گڑھے( ڈگھے) بنائے جاتے، جن میں مکھن رچ بس جاتا تھا ۔ شکر اور گھی سے بھرے ہوئے پیالے
ہماری دادی جان کا نام نور جہان تھا۔ ان کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں
ابتدائی طبی امداد کے طور پر مجھے گرم دیسی گھی دیا گیا جس میں کالی مرچ تھی۔
پھر بابا صاحب خان کھیڑا کو دم کے لیے بلایا گیا۔
کالج کے اساتذہ کو برق صاحب کی طرف سے مرزا صاحب کا مذاق اڑانا پسند نہ تھا۔ لیکن سب خاموش تھے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے
مجھے فاروقی صاحب کا اٹھنا بیٹھنا، لباس پہننا یاد ہے.. یہ سب لکھنوی ثقافت کے قریب تھے۔ ..فاروقی صاحب انتہائی نفیس انسان تھے۔