اس مشک نما چیز کو اٹک میں سناھی کہتے ھیں ۔ ملتان اور سندھ میں اس کو سنداری کہتے ھیں
بھٹ شاہ سے ہالہ پہنچے تو جمعے کی اذانیں ہو رہی تھیں ۔گل صاحب مجھے اہل سنت کی مسجد میں چھوڑ آئے اور فرمایا نماز
پہلی جنگ عظیم 1916 میں ملتان کا ایک فوجی عراق کے محاذ پر تھا۔ اجنبی ماحول اور نا آشنا لوگ وہ بیچارہ سخت پریشان ہوا
لائبریرین تاج برج ( فتح جنگ) کا تھا۔اس کی ملهووالا میں شاید سسرالی رشتے داری تھی ۔اس طرح وہ ہمارا گرائیں ان لا بنتا تھا
گاؤں کی آبادی سے باہر گول دائرے کی شکل میں پختہ زمین کو کھلواڑا کہا جاتا تھا ۔جیسے ہی گندم کی فصل نسر جاتی اس کا رنگ بھورا ہونے لگتا
نسیم بحری(seabreeze) سے پہلی مرتبہ تعارف ہوا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ،گردو غبار سے پاک جھکڑ نما مشرق کی جانب سے آتی ہوئی ہوا۔
نیلو انک کی اشتہاری مہم میں سکول کی نوٹ بکس پر نظمیں لکھی ہوئی ہوتی تھیں ۔ان کے شاعر تائب رضوی چھوئی ایسٹ اٹک کے تھے
سکول کی چار دیواری نہ ہونے کا فائیدہ یہ تھا۔کہ راستہ چلنے والوں کو دیکھتے رہتے تھے اور بور نہیں ہوتے تھے ۔
ایک تماشے والی پنسل کبھی کبھی کسی کے پاس نظر آتی تھی ۔ یہ کالا لکھنے والی پنسل تھی ۔اس کے سکے کو تھوک لگایا جاتا تو جامنی
کتابیں کی جلد سازی کا مناسب اہتمام نہیں تھا ۔نانا گتے کے بغیر صرف کاغذ اور گھر میں بچے ہوئے پرنٹڈ کپڑے سے خوبصورت بائنڈنگ کرتے تھے۔